ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
تمہاری اُجرت کے طور پر ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ منقول ہے۔ جمہورکے قول کے مطابق یہ درست نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ کپڑا صرف دس روپے میں بکے۔ اِس صورت میں وکیل بالبیع کو کچھ اُجرت نہ ملے گی کیونکہ دس سے اُوپر کچھ مِلا ہی نہیں حالانکہ وکیل نے اُجرت پر کام کیا ہے مفت نہیں۔ اِس لیے وکیل کو ہرحال میں اُجرتِ مثل ملے گی خواہ وہ کپڑا دس میں یا اِس سے زائد میں بکا ہو۔ اِمام اَحمد رحمہ اللہ کا اِس کو مضاربت پر محمول کرنا اَور یہ کہنا کہ مضارب کو کبھی نفع حاصل نہیں بھی ہوتا بعید ہے کیونکہ مضاربت میں اِمام اَحمد رحمہ اللہ کے نزدیک رأس المال کا نقدی (یعنی سونا چاندی یاروپیہ) ہونا ضروری ہے۔ وہبہ زُحیلی لکھتے ہیں : اما شرط رأس المال۔ اولا ان یکون رأس المال۔ اولا ان یکون رأس المال من النقود الرائجة ای الدراھم والدنانیر و نحوھا کما ھو الشرط فی شرکة العنان۔ فلا تجوز المضاربة بالعروض من عقار او منقول عند جمہور العلماء ولو کان المنقول مثلیا عند الحنفیة والحنابلة۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ ص ٣٩٣٢ ) '' رہیں رأس المال کی شرائط ،تو پہلی شرط یہ ہے کہ رأس المال مروجہ نقدی میں ہو یعنی چاندی کے درہم یا سونے کے دینار اَور اُن کی مثل (یعنی روپے وغیرہ) جیسا کہ شرکت ِعنان میں بھی یہ شرط ہے۔لہٰذا جمہورعلماء کے نزدیک رأس المال اگر منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ہو تو مضاربت جائز نہیں اَور حنفیہ و حنابلہ کے نزدیک منقولہ اَشیاء اگر مثلی بھی ہوں تب بھی جائز نہیں ہے۔ '' علاوہ اَزیں اِمام اَحمد رحمہ اللہ کا یہ اِرشاد کہ ''مضارب کو کبھی نفع حاصل نہیں بھی ہوتا'' نامکمل بات ہے کیونکہ مضارب کو صرف اُس وقت نفع نہیں ملتا جب رب المال کو بھی نفع حاصل نہ ہو گویا اِس مال