ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
ہوگی آواز ۔ تو جب یہ آیت اُتری رسول اللہ ۖ کی آواز سے زیادہ آواز نہ اُٹھاؤ تو وہ(حضرت ثابت) کہنے لگے کہ میری تو آواز ہی ایسی ہے بہت ڈرے اَور اِتنے ڈرے کہ روتے رہے اَور گھر ہی میں بیٹھ گئے کہ میرے تو اَعمال سارے ہی ختم ہوگئے ہوں گے ۔رسول اللہ ۖ نے دریافت فرمایا کہ مجھے وہ نظر نہیں آئے کہاں ہیں ؟ تو صحابہ کرام نے معلوم کیا معلوم ہوا کہ وہ تو گھر میں ہیںاَور اُس دِن سے جس دِن سے یہ آیت اُتری ہے گھر میںہیں اَورروتے رہتے ہیں اَور یہ کہتے ہیں کہ میری آواز تو ڈبل تھی تو ڈبل آواز ہو تو وہ تو زیادہ ہی ہو گی تو میرا اَنجام کیا ہوگا ؟ آپ ۖ کی طرف سے تسلی اَور بشارت : تو رسول اللہ ۖ نے اُن کو پیغام بھیجا بہت اچھا پیغام کہ اِنَّکَ لَسْتَ مِنْ اَہْلِ النَّارِ اَور یہ فرمایا کہ ولٰکِنَّک مِنْ اَہْلِ الْجَنَّةَ ١ تم تو جنتی ہو ،اُن میں تم نہیں داخل ،تو پھر وہ آتے رہے ۔تو آواز کا تعلق بھی زبان ہی سے ہے حلق ہی سے ہے تو یہ نہ تھکتی ہے اَور جو بھی کام ہوتے ہیں اَکثراِس سے ہوتے ہیں۔ تو حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ اَور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی جہیر الصوت تھے۔ اَبوبکر رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جہیر الصوت تھے اُنہوں نے پابندی کی کہ اِس کے بعد وہ بڑی ہلکی آواز سے بولتے تھے بعض دفعہ پوچھنا پڑتا تھا کہ دوبارہ دُہرائیں کیا بات کہی ،اِتنی اِحتیاط اُنہوں نے کی۔ تو اَبو بکر رضی اللہ عنہ اِسی طرح کی چیزوں کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ھٰذَا الَّذِیْ اَوْرَدَنِی الْمَھَالِکْ زبان ہی تو وہ ہے کہ جس نے مجھے بہت سی ہلاکتوں کی جگہ پہنچایا ہے ہاں یہ اَلگ بات ہے خدا نے بچا لیا تو (حدیث میں)زبان کا مقدم کرنا اِس لیے ہے کہ اِس سے بہت زیادہ کام ہوتے ہیں توجہ اُدھر جاتی ہی نہیں اَور ''اِصلاح ''کا بھی تعلق ہے اَور'' فساد'' کا بھی تعلق ہے۔ ١ بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث ٤٨٤٦