ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
یہ سب کچھ دَلال کی اُجرت کے بارے میں ہے جب مالک نے بیع کے ذکر کردہ ثمن پر زائد ثمن کی کچھ تعیین نہ کی ہو ۔اَور اگر اُجرت کی متعین مقدار ذکر کی گئی ہو پھر کہا گیا ہو کہ اگر تم نے اِس سے زائد رقم پر فروخت کیا تو اُجرت سے زائد رقم بھی سب تمہاری ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جمہور فقہاء بھی اِس سے منع نہیں کرتے کیونکہ اُجرت کی تعیین کی وجہ سے اُجرت مجہول نہ رہی۔ اَور وکیل اگر معین اُجرت سے زائد پر فروخت کرے تو چونکہ زائد رقم اِس کی اچھی کار گردگی کی محرک بنی ہے اِس لیے زائد رقم وکیل کو ملے گی معاییر شرعیہ کے معیارِ مضاربت میں مجلس شرعی نے یہ شِق ذکر کی ہے : اذا اشترط احد الطرفین لنفسہ مبلغا مقطوعا فسدت المضاربة ولایشمل ھذا المنع ما اذا اتفق الطرفان علی انہ اذا زادت الارباح عن نسبة معینة فان احد طرفی المضاربة یختص بالربح الزائد عن تلک النسبة او دونھا فتو زیع الا رباح علی ما اتفقا علیہ۔ '' مضاربت میں جب ایک فریق اپنے لیے نفع کی ایک متعین مقدار طے کرے تو مضاربت فاسد ہوجاتی ہے۔ اِس ممانعت میں وہ صورت داخل نہیں ہے جب دونوں فریق اِس پر متفق ہوجائیں کہ جب نفع ایک مخصوص نسبت سے زائد ہوجائے تو وہ زائد ایک فریق کا ہوگا اَور اگر اِس نسبت سے کم ہو تو طے شدہ شرح سے دونوں میں تقسیم ہوگا۔'' ہمارا تبصرہ : مولانا مدظلہ نے یہ ثابت کیا کہ دَلالی اَور وکالت میں مذکور نفع وکیل یا دَلال کو اُس کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ملے گا لیکن پھر یکایک بات کو وکالت سے مضاربت کی طرف لے گئے اَور معاییرِ شرعیہ سے مضاربت کی ایک صورت ذکر کی اَور اُس کو جواز کے اِعتبار سے وکالت کی مذکورہ صورت کے ساتھ لاحق کردیا۔ مضاربت کی صورت یہ ہے کہ جب نفع ایک مخصوص نسبت سے زائد ہوجائے مثلً