ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
پردہ کی قسموں میں اَصل پردہ تیسرے ہی درجہ کا ہے : نقلی واَصلی مسلمہ ہے کہ اَحکام بعض اَصلی ہوتے ہیں اَور بعض عارضی، اِسی طرح پردہ کے دو درجے ہیں، ایک اَصلی جو اِن آیات میں مذکور ہے وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ اے عورتو! اپنے گھروں میں رہا کرو وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کی آڑ سے مانگو۔یہ پردہ کا حکم اَصلی ہے جو تیسری قسم ہے۔ اَور دُوسرا درجہ عارضی ہے وہ یہ کہ ضرورت کے موقع پر اِس (حکمِ اَصلی) میں تخفیف کر دی گئی اَور یہ دَرجہ اِن آیات میں مذکور ہے یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ الآیة وَغَیْرُ ذَالِکَ الآیة وَغَیْرُ ذَالِکَ ۔(اِمداد الفتاوی ج ٤ ص ١٩٥ ) پردہ کے تینوں دَرجوں کے اَحکام اَور اُن کا باہمی فرق : پردہ کے اِن تینوں دَرجوں میں اِتنا فرق ضرور ہے کہ پہلا دَرجہ اپنی ذات سے واجب ہے اَور دُوسرا اَور تیسرا کسی عارض کی وجہ سے واجب ہے مگر اِس فرق سے یہ لازم نہیں آتا کہ اِن تینوں دَرجوں میں سے کوئی دَرجہ واجب نہ رہے بلکہ اِس فرق کے ساتھ تینوں دَرجے واجب ہیں۔ ٭ اَور چونکہ پہلا درجہ (یعنی چہرہ اَور ہتھیلیوں کے علاوہ پورے بدن کا چھپانا ) اپنی ذات سے واجب ہے اِس لیے اُس کا حکم بھی جوان اَور بوڑھی عورتوں سب کو عام ہے یعنی چہرہ اَور ہاتھوں کے سوا باقی بدن یا سر کے کسی حصہ کو اَجنبی کے سامنے کھولنا بوڑھی عورتوں کو بھی جائز نہیں۔ ٭ اَور دُوسرے اَور تیسرے درجے کا پردہ (یعنی برقع کے ساتھ باہر نکلنا یا گھروں کے اَندر رہنا) چونکہ عارض (یعنی فتنہ) کی وجہ سے واجب ہے اِس لیے اِن کے واجب ہونے کا مدار اِس عارض (فتنہ) ہی پر ہے جہاں وہ عارض (یعنی فتنہ کا خطرہ) موجود ہوگا وہاں یہ دَرجے واجب ہوں گے اَور جہاں عارض موجود نہ ہوگا وہاں یہ دَرجے واجب نہ ہوں گے۔ اَور وہ عارض فتنہ کا اَندیشہ ہے جس کی دلیل رسول اللہ ۖ کا یہ اِرشاد ہے اِسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ نیز حق تعالیٰ کا یہ اِرشاد بھی اِس کی دلیل ہے فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَض کہ جس کے دِل میں روگ ہے وہ طمع کرنے لگے گا۔(جاری ہے)