ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لائی بور کی شرح و نسبت منصوبے سے متوقع نفع کی نسبت سے کم ہوجاتی ہے۔ اُو پر جو ٪١٥ والی مثال گزری اُس کو سامنے رکھیں تو بہت ممکن ہے کہ لائی بور کی شرح صرف ٪٥ ہو اَور مدیر کی بد اِنتظامی کی وجہ سے حقیقی نفع کم ہو کر ٪١٠ کی سطح پر آگیا ہو۔ اَب جبکہ زائد نفع کو لائی بورکی شرح سے ناپا جائے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ٪٥ سے زائد نفع جس کی نسبت ٪١٠ ہے وہ مدیر کو اُس کی حسن کار کردگی کی وجہ سے دیا جائے کیونکہ اُس نے تو بے تدبیری سے نفع ٪١٥ کے بجائے ٪١٠ حاصل کیا ہے۔ اِس سے واضح ہوا کہ صکوک میں جس کو حافز کہتے ہیں وہ حقیقت میں حافز نہیں ہے بلکہ یہ تو اُن صکوک کو لائی بور کے طریقے پر چلانے کا ایک طریقہ ہے۔ اَور اگر ہم اِس کو حرام نہ بھی کہیں تب بھی کراہت سے تو خالی نہیں ہے۔ یہاں تک تو بات فقہی اِعتبار سے تھی۔ نظام اِقتصاد اِسلامی کے اِعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حوافز (حافز کی جمع) جن سے موجودہ صکوک خالی نہیں ہیں شرکت یا مضاربت کے اہم اِقتصادی مقاصد کو مثلًا یہ کہ سرمایہ کاروں کے درمیان مال کی تقسیم عادِلانہ طریقے پر ہو باطل کرتے ہیں کیونکہ حوافز کی بنیاد پر صکوک میں نفع کو سرمایہ کاروں میں صرف لائی بور کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے،منصوبے کے حقیقی نفع کو تقسیم نہیں کیا جاتا۔(جاری ہے) جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور (١) زیر تعمیرمسجد حامد کی تکمیل(٢) طلباء کے لیے مجوزہ دَارالاقامہ (ہوسٹل) اَور درسگاہیں(٣) اَساتذہ اَور عملہ کے لیے رہائش گاہیں(٤) کتب خانہ اَور کتابیں (٥) زیر تعمیرپانی کی ٹنکی کی تکمیل ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اَجر ہے ۔