ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
'' حنفیہ کے نزدیک عاقدین میں سے ایک کے لیے معلوم مقدار کے دراہم کی شرط کرنا جائز ہے جب نفع متعین مقدار کے دراہم سے بڑھ جائے، یہ شرط صحیح ہے اَور اِس سے مضاربت کے صحیح ہونے پر کچھ زَد نہیں پڑتی کیونکہ اِس سے نفع میں جہالت لازم نہیںآتی۔ '' ہم کہتے ہیں :اَوّل تو وہبہ زُحیلی نے جو عام طور سے حنفیہ وغیرہ کی اُمہات الکتب سے حوالے نقل کرتے ہیں یہاں ایک ہم عصر شخص سے نقل کرتے ہیں جنہوں نے خود بھی مسئلے کا مأخذ ذکر نہیں کیا اَور مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے بھی اپنی بات کی تائید میں کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا۔ دُوسرے اُستاد خفیف کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ عاقدین اگر اِس بات پر اِتفاق کرلیں کہ ایک ہزارکی شے پر اگرایک سو روپے سے زائد نفع ہو تو ایک عاقد کو مثلًا اَسی (٨٠) روپے ملیں گے اَور باقی دُوسرے کو ملیں گے تو یہ جائز ہے ۔ اَور اگرایک سو یا اِس سے کم نفع ہو تو مثلًا وہ نصف نصف تقسیم ہوگا۔ اُستاذ خفیف کی مراد غالبًا یہ ہو گی کہ اِس طریقے سے بھی کل نفع میں شرکت ہوجاتی ہے اَور جہالت بھی لازم نہیں آتی۔ اَور مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے بھی معاییر کی عبارت سے یہی معنٰی لیا ہوگا کہ جب نفع رأس المال کی ایک خاص نسبت تک ہو تو طے شدہ شرح سے تقسیم کرلیں گے۔ اِس خاص نسبت تک نفع میں شرکت پائی جا رہی ہے۔ جب نفع اِس نسبت سے زائد ہو اَور وہ زائد پورا کا پورا مضارب کو دے دیا جائے تب بھی نفع میں شرکت باقی ہے کیونکہ ( رب المال اَور مضارب)دونوں کو نفع تو مل رہا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نفع صرف ایک کومِل رہا ہے۔ اُستاذ خفیف اَور مولانا مدظلہ کی اگر یہی مراد ہے جو ہم نے ذکر کی تو بلا شبہ نفع میں شرکت پائی جا رہی ہے لیکن اِس صورت میں کچھ اَور اہم پہلو بھی ہیں جن کو ان حضرات نے نظر اَنداز کر دیا ہے حالانکہ