ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
'' اگر کہا کہ یہ کپڑا دس روپے میں فروخت کرو۔ اگر زیادہ میں فروخت کیا تو زائد نفع تمہارا ہوگا تویہ معاملہ صحیح ہے کیونکہ اِبن عباس رضی اللہ عنہ اِس میں کچھ حرج خیال نہ کرتے تھے۔'' یہ مذہب اِبن عباس، اِبن سیرین، شریح، عامر شعبی، زُہری اَور حَکم سے مروی ہے اَور اِبن ِ اَبی شیبہ نے اِن کو اپنی مصنف میں ذکر کیا اَور عبدالرزاق نے قتادہ اَور اَیوب سے ذکر کیا ہے۔ اِبراہیم نخعی اَور حماد سے عبدالرزاق نے اَور حسن بصری اَور طاؤس سے اِبن اَبی شیبہ نے کراہت نقل کی ہے۔ اَور سوائے حنابلہ کے باقی جمہور فقہاء سے کراہت ہی منقول ہے۔ حافظ اِبن حجر رحمہ اللہ نے اِبن عباس رضی اللہ عنہ کے اَثر کے تحت لکھا کہ یہ دِلال کی اُجرت ہے لیکن مجہول ہے اِس لیے جمہور نے اِس کو ناجائز کہا ہے اَور یہ بھی کہا ہے کہ اگر وکیل نے بتائی ہوئی قیمت سے زائد پر فروخت کیا تو اُس کو اُجرت مثل ملے گی۔ بعض حضرات نے اِبن عباس رضی اللہ عنہ کی اِجازت کو اِس پر اُس وقت محمول کیا ہے جب کام کرنے والا مضارب ہو ،یہی جواب اِمام اَحمد اَور اِسحاق نے دیا۔ اَور اِبن تین نے نقل کیا کہ بعض حضرات نے اِس کے جواز میں یہ شر ط کی کہ ہے کہ اُس وقت لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ سامان کی قیمت طے شدہ قیمت سے زائد ہے۔ اِس پر یہ اِعتراض ہے کہ اُجرت کی مقدار کی جہالت تو پھر بھی باقی رہی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''رہا اِبن عباس رضی اللہ عنہ اَور اِبن سیرین رحمہ اللہ کا قول تو اَکثر علماء اِس بیع کو جائز نہیں کہتے ۔اِس کو مکروہ کہنے والوں میں سفیانِ ثوری اَور دیگر کوفی علماء ہیں۔ اِمام شافعی اَور اِمام مالک بھی کہتے ہیں کہ جائز نہیں اَور فروخت کرنے والے کو اُجرت مثل ملے گی۔ اِمام اَحمد اَور اِسحاق نے اِس کو جائز کہا اَور کہا کہ یہ مضاربت کا مسئلہ ہے اَور مضارب کبھی نفع حاصل نہیں بھی ہوتا۔ ''