ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
'' میں ساتھیوں کے سامنے اَپنی رائے رکھ دیتا ہوںلیکن اگر اِن کی رائے مجھ سے مختلف ہو توجو طے ہوجا تا ہے پھر میں اُس کی پوری طرح پابندی کرتا ہوں۔'' حضرت نے یہ بات یوں ہی نہیں فرما دی تھی بلکہ حقیقتًا آپ کا یہی طریق تھا۔آپ کے اِس ایک اُصول میں غلام غوث ہزاروی صاحب اَور اُن جیسے مزاج والوں کے لیے عظیم دَرس ہے اَور یہی اُصول اِس آیت ِ مبارکہ میں تعلیم فرمایاگیا ہے وَشَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ اَور اِعْجَابُ کُلِّ ذِیْ رَأْیٍٍ بِرَأْیِہ کہ ہر صاحب ِ رائے کو اَپنی ہی رائے سب سے اچھی لگنے لگے۔ حدیث ِ پاک میں اِسے سامانِ بر بادی قرار دیاگیا ہے۔ والعیاذ باللہ ! حضرت رحمة اللہ علیہ کو حضرت اَقدس مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی قدس سرہ سے جیسا والہانہ تعلق تھا اِس کی مثال مشکل سے ملے گی، ہفتہ میں دو ایک بار بھری مجلس میں ضرور تذکرہ فرما تے تھے وہ بھی ایسے عجیب اَنداز سے کہ جو اُن کا ہی حق تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ جمعیة علمائِ ہند کی مجالس ِشوریٰ میں حضرت مدنی رحمہ اللہ کے سامنے میں چار چار گھنٹے دو زانو بیٹھا رہتا تھا حالانکہ آپ کو جوڑوں کی تکلیف کا عارضہ تھا ....اَور سچ مچ..... ایسی محبت و عقیدت رکھنے والا شاید ہی کوئی اَور ہو کہ اَپنے صاحبزادۂ گرامی قدر حضرت مولانا عبیداللہ اَنور صاحب سے فرمایا کہ'' میری ڈاڑھی کے بال حضرت مدنی کی جوتیوں میں سلوادینا ۔''اَور جلسۂ عام میں فرمایا کہ ''جو علم حسین اَحمد مدنی کی جوتیوں میں ہے وہ اَحمد علی کے دماغ میں نہیں ہے۔''پاکستان بننے کے بعد حضرت مدنی رحمہ اللہ کا جو گرامی نامہ آیا وہ آپ نے فریم کرا کر رکھا تھا۔ کیونکہ آپ پر نسبت ِ قادریہ کے اَثرات میں سے کشف کی حالت کا غلبہ تھا اَور اِس میں بھی اِظہار غالب تھا اِس لیے آپ کشفی حالات بر ملابتلاتے رہتے تھے۔