ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
جمعیة علمائے اِسلام کے اِس موجودہ شکل میں اَحیاء کا کام حضرت مفتی صاحب کے ہاتھوں اِس طرح ہوا ہے کہ ''١٩٥٣ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت میں اِحتشام الحق تھانوی کے حکمران ٹولہ کے ساتھ اِتنے زیادہ قریبی اَور گہرے تعلقات تھے کہ جن کی وجہ سے اُن کی ذات بُری طرح مجروح ہوگئی اَور جمعیة علمائِ اِسلام کا قدیم ڈھانچہ بے جان ہو گیا اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہم کو توفیق مرحمت فرمائی،اِنہوں نے مصارف کا اِنتظام کیااَور حضرت شیخ التفسیر مولانا اَحمد علی کی اِعانت سے ملتان میں پہلی بار مغربی پاکستان کی سطح پر علماء کے بہت بڑے اِجتماع کا اِنتظام فرمایا اِس پر مجھے بھی مد عو فرمایا تھا۔ علماء کی اَز سر نو تنظیم پر سب کا اِتفاق تھا اَلبتہ اُسکے نام پر بہت بحث ہوتی رہی بالآخر ''جمعیة علمائِ اِسلام'' ہی نام تجویز ہوا۔ حضرت مولانا خیر محمدصاحب رحمة اللہ علیہ بھی، مولانا عبدالحنان صاحب ہزاروی اَور مولانا محمد نعیم صاحب لدھیانوی جو قدیم جمعیةعلماء ِہند کے نظماء وغیرہ رہتے آئے تھے وہ بھی شریک تھے اَور عہدہ دار بھی (شریک) ہوئے۔ بہر حال جمعیة علمائِ اِسلام کااَز سر نو اِنتخاب عمل میں آیا اَور حضرت لاہوری اَمیر قرار پائے۔ اِس کے بعد بھی جمعیة کی مجالس میں میں شریک ہوتا رہا حضرت مولانا عبداللہ صاحب دَرخواستی دامت برکاتہم بھی شرکت فرمانے لگے اَور بالآخر حضرت لاہوری کی وفات کے بعد آپ اَمیر قرار پائے۔ '' اِس اِجمالی تاریخ کے ذکر کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جمعیة کی مجالس میں بسا اَوقات اِختلاف ِ رائے ہوجاتا تھا ایک دفعہ ایسے ہی اِختلاف کے وقت حضرت نے فرمایا کہ