ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
نام لے کر صاف کہہ دیں۔ جو صاحب ہمیں وہاں لے گئے تھے وہ مرحوم حضرت سے بھی عقیدت رکھتے تھے اُن سے ہم نے یہ کہا اَور بالآخر اُن کی کارروائیاں رُک گئیں، رسید بکیں وغیرہ روک دی گئیں، اُنہوں نے اَپنے مدرسہ کا نام ''جامعہ سعیدیہ'' رکھا اُس میں ہمیں بھی ممبر رکھا اَور ہم نے جامعہ کو علیحدہ کرلیا ۔میں سوچتا ہوں کہ یہ حضرت لاہوریکی اَصابت ِ رائے کے ساتھ'' صلابت'' کی بھی بات تھی۔ ہمدردی میں آپ نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ آپ نے اِرشاد فرمایا کہ ''مدرسہ کا نظام اِمارت پر مبنی ہونا چا ہیے۔ آپ نے فرمایا میرا چالیس سالہ تجربہ ہے کہ یہ لوگ جب کوئی کام چلنے لگتا ہے تو اُس میں دخل اَندازی کرتے ہیں اَور وہ کام ختم ہوجاتا ہے اِنہی تجربات کی بناء پر میں نے اَنجمن خدام الدین کی بنیاد اِمارت پر رکھی ہے۔'' میں نے آپ کے اِرشاد کے مطابق اَپنے اَغراض و مقاصداَور اُصول و ضوابط ترتیب دیے اَور پیش کیے۔ '' آپ نے اَپنے دست ِ مبارک سے اِن کی اِصلاح فرمائی اَور جہاں ضوابط میں کسی نقطہ نظر سے غلطی ہوئی تھی وہاں تبدیلی فرمائی۔ اِن اُصول و ضوابط کو رجسٹرڈ کرایا گیا اَور اِن ہی پر اَب تک جامعہ کا نظام چل رہا ہے۔ جَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرَہ اَور یہ تحریر بفضلہ میرے پاس موجود ہے۔ '' ١ سب کام آپ نے کیے اَور پوری توجہ فرمائی تو ہم نے درخواست کی کہ سرپرستی قبول فرمائیں لیکن آپ نے رسمی سرپرستی کے بارے میں معذرت فرمائی اگرچہ عملاً جو کچھ کوئی سرپرست کرتا ہے وہ آپ ہمیشہ کرتے رہے۔ آپ کے لیے جامعہ کی شوریٰ کے اِجلاس وغیر ہ میںشرکت متعذر تھی، خدا م الدین کا کام بہت زیادہ تھا، وَاردین و صادرین کی بہت کثرت تھی جن میں سالکین زیادہ ہوتے تھے، اَسفار بھی ہوتے تھے اَور عمرہ کا سفر بھی فرماتے تھے۔ ١ یہ تاریخی اَور متبرک تحریر اَب راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے ، والحمدللہ ۔ محمود میاں غفرلہ