ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
فیھا جائز (رد المحتار ص 428ج 3) -2 وفی موضع آخر من الوقف من فتاویٰ الشلبی ما نصہ فاذاکان وقف الدراہم لم یرو الا عن زفر ولم یروعنہ فی وقف النفس شیٔ فلا یتأتی وقفھا علی النفس حینئذ علی قولہ لکن لو فرضنا ان حاکما حنفیا حکم بصحة وقف الدراہم علی النفس ھل ینفذ حکمہ فنقول النفاذ مبنی علی القول بصحة الحکم الملفق و بیان التلفیق ان الوقف علی النفس لا یقول بہ الا ابو یوسف وھو لایری وقف الدراہم و وقف الدراہم لایقول بہ الا زفروھو لایری الوقف علی النفس فکان الحکم بجواز وقف الدراہم علی النفس حکما ملفقا من قولین کما تری۔ و قد مشی شیخ مشائخنا العلامة زین الدین قاسم فی دیباجة تصحیح القدوری علی عدم نفاذہ و نقل فیھا عن کتاب توفیق الحکام فی غوامض الاحکام ان الحکم الملفق باطل باجماع المسلمین و مشی الطرسوسی فی کتابہ انفع الوسائل علی النفاذ مستندا فی ذلک لما راہ فی منیة المفتی۔ ''فتاویٰ شلبی ہی میں ایک اور مقام پر یہ ذکر ہے کہ دراہم کا وقف صرف امام زفر رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے جبکہ اِن سے اپنے اُوپر وقف کے بارے میں کچھ منقول نہیں ہے لہٰذا اِن کے قول پر دراہم کا وقف علی النفس نہیں بنتا لیکن اگر ہم فرض کریں کہ کسی حنفی حاکم نے دراہم کے وقف علی النفس کے صحیح ہونے کا حکم جاری کیا تو کیا اِس کا حکم نافذ ہوگا؟'' ہم کہتے ہیں : نافذ ہونا اِس پر مبنی ہے کہ تلفیق شدہ حکم کو صحیح مانا جائے اور تلفیق کا بیان یہ ہے کہ وقف علی النفس کے قائل امام ابو یوسف رحمةاللہ علیہ ہیں جو دراہم کے وقف کے قائل نہیں جبکہ دراہم کے وقف کے قائل امام زفر رحمة اللہ علیہ ہیں جو وقف علی النفس کے قائل نہیں ہیں۔ لہٰذا دراہم کا وقف علی النفس ایسا حکم ہے جو دو قولوں کی تلفیق سے حاصل ہوا ہے۔ علامہ زین الدین قاسم رحمة اللہ علیہ نے دیباجہ تصحیح القدوری میں لکھا