ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
کیاوہ عافیہ صدیقی ہے؟ ( مضمون نگار : جناب عرفان صاحب صدیقی ) برطانوی خاتون صحافی ریڈلی نے جب ہفتہ بھرپہلے خبردی کہ امریکیوں کے زیرِکمان افغانستان میں بگرام کے ہوائی اَڈے پر قائم عقوبت خانے میں ایک پاکستانی خاتون گزشتہ چارسال سے بندہے تو میرے دِل پہ ایک خنجرساچلا۔ اِسلام آبادمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا بگرام کے بندی خانے میں وہ تنہاخاتون ہے اُسے شدید تشدد کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ رات کے پچھلے پہر جب اُس کی دَردناک چیخیں بلندہوتی ہیں توقیدیوں کے دِل دَہل جاتے ہیں۔ وہ بگرام کے عقوبت خانے کی بھوت بن چکی ہے۔ ایساکبھی کسی مغربی خاتون کے ساتھ نہیں ہوسکتا وہ یقینًا کوئی پاکستانی خاتون ہے۔ پاکستان کو اِس کاپتہ چلانا چاہیے۔ مجھے یوں لگاجیسے کسی نے میرا دِل چیرکر ایک دَہکتااَنگارااُس کے اندر رَکھ دیاہو۔ میراذہن کوئی پندرہ سال پیچھے پلٹ گیا جب پریوں جیسے چہرے والی ایک خوبرولڑکی جس کی شکل میری بیٹی سے بہت ملتی تھی، سرپرسکارف لپیٹے اَدب واحترام کی تصویربنی میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اُس کاچہرہ پاکیزگی کے نورمیں گندھاتھا اوراُس کی آنکھیں مشرقی حیاء کے تقدس سے جھلک رہی تھیں تب وہ امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی اورغالباًمذاہب کے تقابلی جائزے پرایک مقالہ لکھ رہی تھی۔ اُس کی ماں عصمت صدیقی نے ایک دوست کے توسط سے اِسے رہنمائی کے لیے میرے پاس بھیجاتھا۔ وہ بلاکی ذہین، علم کی طلب اورجستجوکی تڑپ رکھنے والی لڑکی تھی۔ اُس عمرمیں بھی وہ آزادانہ تجزیے اورجانچ پرکھ کاقرینہ سیکھ چکی تھی۔ میری اُس سے تین چارملاقاتیں ہوئی اورپھروہ اپنی یونیورسٹی لوٹ گئی۔اُس کی والدہ کراچی میں تھیں جن کے ذریعے اُسکی خیر خبرملتی رہتی تھی۔بوسٹن یونیورسٹی اورمیسی چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے ہرمرحلہ تعلیم میں اُس نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ امتیازی اعزازکے ساتھ نیورولوجی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ اُس کی ہرکامیابی پراُس کی والدہ مجھے فون کرتیں اورہربارایک جملہ ضرورکہتیں'' عافیہ آپ کو سلام کہہ رہی تھی''پھرامریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی ڈاکٹرامجدخان سے اُس کی شادی ہوگئی۔ وہ