ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2008 |
اكستان |
|
تنے زبردست علم والے حدیث کی خدمت کرنے والے اللہ تعالیٰ نے پیدا کردیے ۔ آیت کا مصداق امام اعظم پہلے اور باقی حضرات دُوسرے درجہ میں ہیں : تورسول اللہ ۖ کی تفسیر کے مطابق اگر دیکھا جائے تو یہ لوگ اِ س آیت کا مصداق بنتے ہیں۔ امام ِ اعظم اِن سے پہلے کے دَور کے ہیں اُن کے بارے میں میں بتاہی چکا کہ وہ اوّلین مصداق بنتے ہیں، ثانوی درجے میں یا یہ سمجھ لیجیے کہ فقہی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو وہ (فقہائ) ہیں اَور حدیث کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ (محدث )لوگ ہیں اِس آیت کا اور اُس تفسیر کا جو رسول اللہ ۖ نے اِس آیت کی کی ہے یہ لوگ مصداق بنتے ہیں۔ وہبی درجے (صحابہ ،تابعین اورتبع تابعین ) : یہ تو سب کا اتفاق ہے اجماعی عقیدہ ہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے صحابۂ کرام کا درجہ سب سے بڑا ہے وہ صحابی ہی ہیںاُنہوں نے کوئی کام نہ بھی کیا ہو فرض اَدا کیے ہوں فقط تو بھی اُن کا درجہ بہت بڑا ہے اُمت کے کل ولی بھی اُس درجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ جو بڑے سے بڑے ولی ہیں وہ بھی نہیں پہنچتے اُس درجے کو، اُن کے بعد درجہ تابعین کا ہے اُس درجے کو بھی پہنچنا بہت مشکل ہے رسول اللہ ۖ نے اُن کا شرف بتادیا، تبع تابعین اِن کا بھی شرف بتادیا ہے تو اِن کے درجے تو وہبی ہوئے جیسے کوئی پیدائشی ولی ہو بس۔ نبی کی صحبت اور زمانہ کی قربت کی وجہ سے اِن کو رِیاضتوں کی ضرورت نہ پڑی : تو وہ ایسے تھے کہ اِسلام میں داخل ہوئے تو ایسے ہوگئے جیسے پیدائشی ولی ہوتے ہیں اُنہیں ریاضتوں کی ضرورت نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ،یہ رسول اللہ ۖ کے فیض ِ صحبت کا اَثر تھا جو متعدی چلتا رہا آگے تک قرب ِ زمانہ کا اَثر تھا جو چلتا رہا قریب تر دَور تک،اِس لیے جو قوت ِایمانی ریاضتوں سے مکاشفات سے کسی کو حاصل ہوتی ہے وہ اُن کو بغیر کچھ کیے حاصل تھی، تبع تابعین کے بعد پھر فرمایا گیا کہ سب برابر کے لوگ ہوں گے جیسے عام ہوتے ہیں خصوصیت نہیں رہے گی کوئی بھی۔ دَور کی خصوصیت وہ تین ہی دَور تک چلی آئی ہے۔ امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ تابعی ہیں امام مالک رحمة اللہ علیہ تبع تابعی ہیں اور شاید امام احمد رحمة اللہ علیہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ بھی تبع تابعین میں ہوں اِنہوں نے کسی تابعی کو دیکھا ہو یہ ہوسکتا ہے کیونکہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ