ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2007 |
اكستان |
|
عورتوں کے رُوحانی اَمراض ( از اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) مانگی ہوئی چیز واپس نہ کرنا : (عورتوں میں ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ) مانگی ہوئی چیز میں تساہل (سُستی کرتی) ہیں۔ حالت یہ ہے کہ کوئی چیز منگائی اور کام بھی ہوگیا مگر یہ توفیق نہیں ہوتی کہ واپس کردیں۔ جب دینے والا (مالک) خود ہی مانگتا ہے تب دیتی ہیں اور اگر خود بھی دیں گی تو ایک عرصہ کے بعد اِس میں بہت سی چیزیں گُم بھی ہوجاتی ہیں اور خراب بھی ہوجاتی ہیں۔ بعض وقت مہینوں گزرجاتے ہیں (لیکن چیز) واپس ہی نہیں کی جاتی۔ اگر کسی نے طلب کرلیا تو دے دی ورنہ پرواہ بھی نہیں ہوتی، نیت خراب نہ ہو مگر تساہل (سُستی) اِس قدر ہے کہ حد سے زیادہ۔ (احکام المال التبلیغ ص ١٥/ ١٤٠) دُوسرے کا سامان برتن وغیرہ واپس نہ کرنا : اور ایک بے اِحتیاطی (اور بڑی کوتاہی) یہ ہوتی ہے کہ کھانے کے ساتھ جو برتن چلے جاتے ہیں اُنہیں واپس کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی بس اپنے یہاں اِن برتنوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِسی طرح مدت ہوجاتی ہے جب خود منگاتے ہیں تب ملتے ہیں۔ خود میرے گھر میں سُستی ہوتی ہے حالانکہ شریعت نے اِس میں اِتنی اِحتیاط کی ہے کہ فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کھانا بھیجے تو اُس برتن میں کھانا حرام ہے اپنے برتن میں اُلٹ لو پھر کھائو۔ ہاں ایک صورت میں جائز ہے کہ وہ کھانا ایسا ہو جو برتن بدلنے سے خراب ہوجاتا ہو جیسے فیرنی کلفی وغیرہ یا اُس کا لطف جاتا رہے تو اگر ایسا کھانا ہو تب اُس برتن میں کھانا جائز ہے ورنہ نہیں ،ہاں اگر مالک استعمال کرنے کی اجازت دیدے تو جائز ہے۔ فقہاء کے قول کی دلیل یہ حدیث ہے : اَلا لَایَحِلُّ مَالُ امْرِیٍٔ مُّسْلِمٍ اِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِّنْہُ خبردار ہوجائو کسی مسلمان کا مال اُس کی دلی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں۔