ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2002 |
اكستان |
|
پر نمودار ہو گئے ۔تب مفتی صاحب نے بگڑکر ایک خاص مشفقانہ ا نداز میں فرمایا۔بھائی جان اگر اس شخص نے کوئی خطرناک اقدام کردیا تو ذمہ د ا ری کس پر عائد ہو گی ۔بس اس گفتگو پر مجلس برخاست ہوگئی اورہم دل میں کڑھتے ہو ئے واپس آئے۔ کچھ مدت کے بعد نو مسلم کابارہم پرگراں گزرنے لگا ۔پھر مفتی صاحب کے خیالات اس بارہ میں ہمیں معلوم ہی ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ہم نے نو مسلم کو جدا کر دینا چاہا ۔اس دوران میں نو مسلم ہمارے باورچی سے انتہائی خلا ملاپیدا کر چکا تھا۔جب ہم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو ہمیں اپنے اس دیانتدار باورچی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ دونوں ہم سے رخصت ہوکر ریاست پٹیالہ میں جا مقیم ہوئے ۔کچھ عرصہ تک تو باورچی کی خیریت معلوم ہوتی رہی لیکن اچانک یہ خبر سننے میں آئی کہ باورچی قید خانے میںہے اور نو مسلم پھانسی پا چکا ہے۔بعد میں پتہ چلاکہ پٹیالہ پہنچ کر نو مسلم نے اپنے آپ کو ڈاکٹر مشہور کیا اور پریکٹس شروع کردی ایک د ن کوئی نو عمر بچی زیور پہنے دوا ء لینے آئی تو زیور کے لالچ میںنو مسلم نے اس معصوم کو قتل کر ڈالا اور اپنی دکان ہی میں لاش دفن کردی ۔پولیس نے کیس پکڑلیا ۔اور تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ عادی مجرم تھابالآخر وہ تو اپنے کیفر کردار کو پہنچا اورپھانسی چڑھ گیااورہمارے باورچی صاحب بھی اس سے تعلق کی بناپر جیل پہنچ گئے۔جب ہمیں یہ سارا واقعہ معلوم ہوا تو مفتی صاحب مرحوم کی خداداد صلاحیت کا قائل ہونا پڑا اوردل میں سوچا۔ ''رسید ہ بود بلائے ولے بخیر گزشت'' ١