آنسوں رونے کو جی چاہتا ہے ،کیوں کہ:
(١) ہمارا حال یہ ہے کہ اذان کا وقت ہو جاتا ہے مگر بھری مسجدمیں صحیح اندا ز میں کہنے والاکو ئی نہیں ہو تا ۔
(٢) اکثرمساجدمیںاذان کے لیے افرادتومتعین ہیں لیکن ان کے انتخاب میں کلما ت کے حسن اداء کے بجائے، مؤذن صفائی کتنی اچھی کرے گا اس کو تر جیح دی جاتی ہے۔
(٣) اذان کے دوران مکمل خاموشی اختیار کر نے کے بجائے لوگو ںکی گپ شپ واہی تباہی اورفضول گفتگوجاری رہتی ہے۔
(٤) اذان کا جواب دینے والے مسلمان معا شرہ میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔
(٥) اذان کے اختتام پر عملی جواب دیتے ہوئے ہمارے قدم مسجدکی طرف اٹھنے کے بجائے اپنے کار وبار وغیرہ میںمصروف رہتے ہیں۔
(٦)پہلے لو گ کلمات اذان سن کر گا نا، ریڈیو،ٹی وی بندکرکے اذان کی تعظیم کرتے تھے، مگر اب عموماً اذان کے دوران ٹی وی، سی ڈ ی آن(on)کرکے ڈرامے چلتے ہیں ناچ گانے اورکھیل کودکے منظرسے اسلام کے نام لیوامحظوظ ہوتے ہیں اوراپنے ہی ہاتھوں شعار اسلام کو پامال کرتے ہیں اس زبوں حالی اور ابتر ی،اذان و مؤذن کی توہین کودیکھ کرکہناپڑتا ہے کہ ع
مجھ سے دیکھانہ گیاحسن کارسواہونا
جامعہ اکل کوا کے بانی و رئیس حضر ت وستانوی دامت برکاتہم کی وسیع نظرنے اس عظیم شعارسے ملت اسلامیہ کے اعراض کا احساس کرتے ہوئے پانچویں و چھٹے کل ہند مسابقة القرآن الکریم کے موقع پرپورے ہندو ستان کی ٢٤ریاستوںمیںاذان کی فرع کے ذریعہ اس کی اہمیت اور ضرورت کی طرف امت