مسئلہ(٣): اذان کا مقصود غائبین کو خبر واطلاع دینا ہے، اگربر آمدۂ مسجد میں اذان کہنے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے تو وہاں بھی اذان درست ہے۔
(درمختار،فتاوی محمودیہ:ج٥، ص٣٩٠،٣٩١)
غیر مسلموں کی بستی میں اذان:
مسئلہ(٤):ا گر کسی جگہ اہل ہنود کا غلبہ ودبدبہ ہے اور اذان دینے سے نزاع کا ظن غالب ہے کہ نتیجتاًمقابلہ میں نقصان اور مغلوبیت کا سامنا کرنا پڑے گا تو زیادہ بلند آواز سے نہ کہے بل کہ معمولی طریقے سے کہہ دے کیوں کہ اذان سنت ہے، نماز بغیراذان بھی ہو جاتی ہے۔(ردالمختار،فتاوی محمودیہ:ج٥، ص٣٩٤، ٣٩٥،٣٩٧ )
ایک مسجد کی ١ذان دوسری متصل مسجد کے لیے کافی نہیں:
مسئلہ(٥): اگر دو مسجد یںمیں قریب قیریب اور بالکل متصل ہوں، اور ایک مسجد کی اذان دوسری مسجد تک سنائی دیتی ہو تو دونوں مسجدوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ اذان مسنون ہے کیوں کہ دونوں مسجدیں مستقل ہیں، دونوں میں جماعت بھی جداگانہ ہوتی ہے لہٰذا اذا ن کہی جائے گی۔ (عالمگیری،فتاوی محمودیہ:ج٥، ص٣٩٩،٤٠٠)
لاؤڈاسپیکر پر اذان کا حکمِ شرعی:
مسئلہ(٦): اذان کی مشروعیت کا مقصد نماز کے لیے لوگوں کو جمع کرناہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نماز کی اطلاع دی جائے،چوںکہ موجودہ آلہ (لاؤڈاسپیکر) سے یہ مقصد بطریق احسن حاصل ہوسکتا ہے، اس لے لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا جائز و مستحسن ہے۔
(فتاوی حقانیہ:ج٣،ص٦٢/خیرالفتاوی:ج٢، ص٢٠٢/ کفایت المنتہی:ج٣، ص٥٢/ہدایہ مراقی الفلاح)