آیت کریمہ کی تفسیر فرماتے ہوئے علامہ عبدالماجددریاآبادی تحریرفرماتے ہیں کہ آیت کریمہ کامفہوم صاف اورواضح ہے۔آیت کے پہلے حصے میں اشارہ ہوتاہے کہ جو غیرمسلم اسلام کا مضحکہ بنائے ہوئے ہیں انہیں اپنارفیق وہمرازدوست و دمسازبنانا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں،(جومسلمان اپنے دل میں اللہ کاڈررکھتاہے اس سے ایسا ہوناممکن نہیں)۔
دوسری آیت میںتمام شعائردین میں سے صرف اذان کو چن کرفرمایاگیاکہ یہ لوگ اس پر تمسخرکرتے ہیں،معلوم ہواکہ اذان کی تحقیرعین دین اسلام کی تحقیرہے۔
اپناگردوپیش دیکھ کرمعلوم ہوگاکہ آج قوم سب سے زیادہ دین اسلام شعا ئر اسلام عقائد ِ اسلام کی تحقیر وتضحیک پر تلی ہوئی ہے،کئی قوموں کے اخبارات اورتصانیف میں اسلام اورشعائر اسلام کے تمسخر واستہزا ء کو اپنا شعاربنارکھا ہے ۔
آیت کریمہ میں اذان کی تحقیراسلام کے دشمنوںکاطریقہ اور شعار بتایا گیا ہے ، آج کے دورمیں غیروںکا نہیں اپناجائزہ لیں اورمحاسبہ کریں بیگانوں کا نہیں اپنوں کا طرز ِعمل اس باب میں کیاہے؟
کتابوںمیں لکھاہے کہ آپ اذان کی توقیرپرمامورتھے لیکن ہماراطرز ِعمل گوا ہی دے رہاکہ ہمارے دلوں اورسینوںمیں توقیرکی جگہ تحقیر نے لے لی ہے۔
جمعہ کی اذان ہمارے کانوںسے ٹکراتی ہے ،لیکن ہم اپنی عدالتوں،دفتروں اور کارخانوں سے اپنی کرسی چھوڑکرکب اٹھتے ہیں ،مغرب کی اذان ہم سالہاسال سے سن رہے ہیں۔ کب ہم نے حی علی الصلٰوة کی تعمیل میںاپناکرکٹ ،ٹینس یاوالی بال بند کیاہے،عشاء کی اذان سنتے سنتے جوانی بڑھا پے میں تبدیل ہوگئی ،لیکن اللہ کی کبریائی اور بڑائی کی پکارسن کر کیا ہم میں کوئی ہل چل مچی؟کسی نے سچ کہا ہے