پیش کرتا ہوں کیوں کہ مولوی لوگ بلا دلیل کہاں مانتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ4 ؎
جو بندہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کے آنسو بہہ پڑیں۔ رَجُلٌ موصوف ہے، ذَکَرَ اللہَ خَالِیًایہ جملۂ فعلیہ رَجُلٌ کی صفت ہورہا ہے، اور قاعدہ ہے کہ صفت موصوف کے لیے بمنزلۂ قید ہوتی ہے، ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا ایک صفت ہوئی اور فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ دوسری صفت ہوئی تو موصوف کے لیے دو صفت کی قید ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ یہ رجل مقبول نہ ہوگا اگر اس کے آنسوؤں کو کسی نے دیکھ لیا۔ اگر کوئی گناہ گار تنہائی میں روتا ہے اور اس کے آنسوؤں کو کسی نے دیکھ لیا یا اللہ کو تو یاد کیا مگر رویا نہیں، آنسو نہیں نکلے، ان دونوں صورتوں میں اسے یہ مقام نہیں ملے گا،یہ مقام مشروط ہے دو صفات کے ساتھ کیوں کہ صفت قید ہوتی ہے موصوف کے لیےجس پر اس کا ثمرہ موعود ہورہا ہو، جیسے رجل پر ثمرہ موعود ہورہا ہے جو دو صفت سے مقید ہے، رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا یعنی تنہائی میں اللہ کو یاد کرو جہاں کوئی نہ ہو۔
جب ہم ڈھاکہ گئے تو وہاں حافظ جی حضور رحمۃ اللہ علیہ نے دریا کے کنارے مدرسہ بنایا ہوا ہے،صبح فجر کے وقت سناٹے میں دریا کے کنارے سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ ہوتی تھی جو سلطنت بلخ چھوڑ کر دریا کے کنارے اللہ کویاد کرتے تھے۔ ڈھاکہ میں میں نے حافظ جی حضور سے عرض کیا کہ آپ کا مدرسہ دریا کے کنارے ہے، اس دریا کا نام بوڑھی گنگا ہے،کیوں کہ بہتے بہتے وہاں آکر اس کی رفتار سست ہوجاتی ہے تو ان لوگوں نے سوچا کہ اس کا نام یہ ہی رکھ دو۔ آہ! اس تنہائی کی قدر اللہ کے عاشقوں سے پوچھو، مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
آہ را جز آسماں ہمدم نبود
راز را غیر خدا محرم نبود
میری آہ کا سوائے آسمان کے اور کوئی سننے والا نہیں ہوتا یعنی کبھی کبھی میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں، تنہائی میں جہاں صرف آسمان اور زمین ہوتے ہیں، جنگل، دریا کا کنارہ یا کوئی حجرہ ہوتا ہے
_____________________________________________
4؎ صحیح البخاری:91/1،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلٰوۃ،المکتبۃ المظھریۃ