طریق الی اللہ |
ہم نوٹ : |
|
جب بھی اپنے شیخ حضرت تھانوی کی خدمت میں تھانہ بھون حاضر ہوتے تو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ چند قدم آگے بڑھ کر ان سے معانقہ فرماتے اور یہ مصرع پڑھتے ؎ اے آمدنت باعثِ صد شادئ ما اے عبدالغنی! تمہارے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ایک مرتبہ تھانہ بھون میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ کا خط ان کا نام لیے بغیر پڑھ کر سنایا، اُس وقت وہاں سلطان پور کے ایک بزرگ حاجی عبد الواحد صاحب بھی بیٹھے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے مرشد کا خط حکیم الامت نے پڑھ کر سنایا تھا جس میں شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی تحریر میں یہ لکھا تھا کہ حضرت جب میں دنیا کی زمین پر چلتا ہوں تو مجھ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں آخرت کی زمین پر چل رہا ہوں۔ یہ جملہ پڑھ کر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایاکہ یہ شخص اس زمانے کا صدّیق ہے۔ حاجی عبدالواحد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ یہ خط سنا کر حکیم الامت کسی کام سے گھر تشریف لے گئے تو میں نے اس خط کو دیکھاتو اس پر عبدالغنی اعظمی لکھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے حکیم الامت کو لکھا کہ میں تھانہ بھون حاضری کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت نے جواب میں لکھا کہ اجازت چہ معنیٰ، بلکہ اشتیاق! یعنی میں تو خود آپ کا مشتاق ہوں۔ مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ جن کے قلب میں اﷲ تعالیٰ اپنی محبت کی دولت عطا فرماتے ہیں تو اﷲ والے دوستوں سے مل کر ان کے قلب کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے ؎ پیشِ ما باشی کہ بختِ ما بود جانِ ما از وصلِ تو صد جاں شود اے میرے اﷲ والے دوست! تم میرے سامنے رہا کرو تو میری خوش نصیبی ہوگی، تمہاری ملاقات سے میری جان سوجان ہوگئی۔ اﷲ والی محبت کا خوشی سے یہ حال ہوتاہے۔ اﷲ تعالیٰ سے مصافحہ کا طریقہ تو مولانا ماجد علی جونپوری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الحدیث کے والد مولانا یحییٰ صاحب