طریق الی اللہ |
ہم نوٹ : |
|
حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے بخاری شریف پڑھا کرتے تھے۔ مولانا یحییٰ صاحب حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت تھے اور مولانا ماجد علی صاحب بیعت سے انکار کرتے تھے۔ جب کبھی وہ مشورہ دیتے کہ اتنا بڑا قطب العالم پھر کہاں ملے گا، ان سے بیعت ہوجاؤ تو ہنس کر فرماتے کہ بھائی ہمیں آزاد ہی رہنے دو مگر مولانا یحییٰ صاحب ان کے پیچھے لگے رہتے تھے کہ یہ کسی طرح اس اﷲ والے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں۔ دنیا میں اﷲ تعالیٰ سے مصافحہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے سچے پیر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے، سچے اﷲ والے متبعِ شریعت اور سنت کے ہاتھ پر جب کوئی بیعت ہوتا ہے تو سلسلہ در سلسلہ اس کا ہاتھ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے صحابہ! نبی کے جس ہاتھ پر تم بیعت ہورہے ہو یہ گویا اﷲکا ہاتھ ہے یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ 2؎ نبی کے ہاتھ پر اﷲ کا ہاتھ ہے تو اس طرح صحیح سلسلہ میں بیعت ہونا گویا کہ سلسلہ بسلسلہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ مصافحہ ہے، روئے زمین پر کوئی راکٹ، کوئی ہوائی جہاز، کوئی راستہ ایسا نہیں ہے جس سے بندے کا اﷲ تعالیٰ سے مصافحہ ہوجائے کیوں کہ سلسلہ در سلسلہ یہ ہاتھ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے ہاتھ پر اﷲ کا ہاتھ ہے تو بتائیے صحابہ کرام کو اﷲ کے ہاتھ کا مصافحہ نصیب ہوا کہ نہیں؟ تو اس سلسلہ کی بڑی برکت یہ ہے کہ اگر سنت وشریعت کا پابند سچا پیر ہو تو یہ ہاتھ سلسلہ بسلسلہ اﷲ تک پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال!جب مولانا یحییٰ صاحب نے دیکھا کہ مولانا ماجد علی صاحب مرید ہونے سے کترا رہے ہیں تو انہوں نے ایک ترکیب نکالی۔ جب بخاری شریف پڑھتے ہوئے وقفہ ہوا تو خود ہی حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے عرض کر دیا کہ حضرت! مولانا ماجد علی کو بیعت کرلیجیے، مولانا گنگوہی نےسمجھا کہ شاید مولانا ماجدعلی نے مولانا یحییٰ کو اپنا نمایندہ بنایا ہے فوراً ہاتھ بڑھا دیا، جب قطب العالم نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا تو پھر مولانا ماجد علی کو ہمت نہ ہوئی کہ اتنا بڑا قطب العالم ہاتھ بڑھائے اور وہ اپنا ہاتھ کھینچ لیں،اتنی بد تمیزی اور بے ادبی کی ہمت کون کرسکتا تھا، بس داخلِ سلسلہ ہوگئے۔ _____________________________________________ 2؎الفتح : 10