طریق الی اللہ |
ہم نوٹ : |
|
لفظ ہے کہ اپنے رب کا نام لو تو چوں کہ پالنے والے سے محبت ہوتی ہے، لہٰذ ا یہ لفظِ ’’رب‘‘ بتا رہا ہے کہ پالنے والے کا نام محبت سے لیا کرو، جس نے تمہیں پالا ہے اور تمہارے پالنے کے لیے سارے عالم میں اسباب بکھیر دیے، ہمالیہ پہاڑ پیدا کیے تاکہ خلیج بنگال سے مون سون ہوائیں بادل لے کر ہمالیہ سے ٹکرائیں اور بارش برسائیں۔ سائنس دانوں کی تحقیق ہےکہ اگر خدا ہمالیہ پہاڑ پیدا نہ کرتا تو خلیج بنگال سے مون سون ہوائیں بادل لے جا کر تاشقند، آذر بائیجان، سمر قند و بخارا میں برستیں اور ہندوستان مثل منگولیا کے ریگستان ہوجاتا، لیکن سائنس دانوں کا دماغ صرف اسباب تک پہنچتا ہے اور اللہ والوں کا دماغ خالقِ اسباب تک پہنچتا ہے کہ سمندر کس نے پیدا کیا؟ سورج کس نے بنایا جس کی گرمی سے بخارات بادل بن کر اُٹھے؟ تو ’’رب‘‘ کا لفظ نازل کرکے اﷲ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ اللہ کا نام دردِ دل اور محبت سے لو، عاشقانہ کیفیت سے اﷲ کا ذکر کرنا سیکھو۔ اگر ذکر تعداد میں تو پورا ہو مگر عاشقانہ نہ ہو تو ایسا ہے جیسے آپ کو ایک گلاس گرم پانی دیا جائے تو کمیت تو ہے مگر اس سے پیاس نہیں بجھے گی کیوں کہ کیفیت نہیں ہے اور اگر کیفیت ہے پانی خوب یخ ہے مگر ایک چمچے کے برابر ہے تو کیفیت تو ہے لیکن کمیت نہیں ہے اس سے بھی پیاس نہیں بجھے گی تو جتنا ذکر شیخ نے بتایا ہے اس کی کمیت بھی پوری کرو اور کیفیت بھی پوری کرو پھر دیکھواللہ تعالیٰ کا ذکر آپ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے، یہی ذکر ذاکر کو مذکور تک پہنچا دے گا۔ ذکر اﷲ تَبَتُّل کا ذریعہ ہے اور اﷲ تعالیٰ نے وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا میں یہ نہیں فرمایا کہ پہلے دل کو خالی کرو پھر ہم کو یاد کرو، اس آیت میں ذکر کو تَبَتُّلْ پر کیوں مقدم کیا؟ اس کا جواب حکیم الامت نے یہ دیا ہےکہ اﷲ کے نام میں یہ خاصیت ہے کہ ؎ نکھرتا آرہا ہے رنگِ گلشن خس و خاشاک جلتے جارہے ہیں اﷲ کے نام کی برکت سے قلب سے غیراﷲ خود نکل جائیں گے۔ مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ نے