طریق الی اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک خوبصورت جوان کو بادشاہ نے بلایاتاکہ اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کردے، مگر وہ بادشاہ عادت کا اچھا نہ تھا، اس نوجوان کو ڈر لگا کہ یہ بیٹی تو دے گا، مگر میرے حسن کو غلط استعمال کرے گا، میرے ساتھ بدفعلی کرے گا لہٰذا اس نے انکار کردیاکہ ہم آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔ تو علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو بھی عرش کا سایہ دے گا کیوں کہ اس نے اپنی جوانی کو اﷲ پر فدا کردیا۔ حسن کا شکر کیا ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ سورۂ یوسف کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حسن کا شکریہ کیا ہے؟ اگر خدائے تعالیٰ کسی کو حسین پیدا کریں تو حسن کا شکریہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں: فَاِنَّ شُکْرَ الْحُسْنِ اَنْ لَّا یُشَوِّھَہٗ فِیْ مَعَاصِی اللہِ تَعَالٰی شَانُہٗ 6؎جس کو اﷲحسین پیدا کرے، اس کے حسن کا شکریہ یہ ہے کہ اپنے حسن کو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے، جس نے حسن دیا ہے اُسی پر حسن کو فدا کرے، جس نے دردِ دل دیا ہے اُسی پر دردِدل کو فدا کرے۔ اب رہ گیا کہ جوانی اﷲ پر کیسے فدا ہو؟ تو اس کے لیے علمِ دین حاصل کرنے میں جان گھلائے، بہترین جید عالمِ دین بنے، حاشیہ دیکھے، شروح دیکھے، متن کو حل کرے یہاں تک کہ اعراب بھی دیکھے کہ کس باب سے ہے۔ جو اس غم میں گھل جائے وہ بہترین عالمِ دین ہوگا، لیکن جوانی میں تین کام ایسے ہیں کہ جو ان تین کاموں سے بچ جائے گا اس کی جوانی مرتے دم تک جوان رہے گی، اس کے بال سفید ہوجائیں گے، مگر اس پر عالمِ شباب کی کیفیت طاری رہے گی، کیوں کہ اس نے اپنے شباب کو اﷲ پر فدا کیا ہے۔ اﷲ پر فدا ہونے والا غیر فانی ہوجاتا ہے اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے: مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ 7؎ _____________________________________________ 6؎روح المعانی:75/13،داراحیاءالتراث، بیروت،ذکرہ فی اشارات سورۃ یوسف 7؎النحل : 96