محبت الہیہ کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ 3؎اے محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم )!ایمان والوں سے فرمائیے کہ نظربازی سے اپنی آنکھوں کو محفوظ رکھیں نظر نیچی کرلیں۔ اگر یہ گناہ مضر نہ ہوتا تو کیا ارحم الرحمین مفید کام سے ہم کو روکتے؟ کیا کسی کا ابّا اپنے بچوں کو مفید کام سے روکے گا؟ تو ربّا اپنے بندوں کو مفید کام سے کیسے روکے گا؟ اﷲ تعالیٰ کا منع کرنا ہی دلیل ہے کہ یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہے، مضر ہے۔ اور پھر اس میں ایک خاص نکتہ ہے کہ براہِ راست نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو! نظر نیچی کرو۔ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہلوایا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی حیا کی دلیل ہے کہ جیسے ابّا مارے حیا کے اپنے بچوں سے ڈائریکٹ نہیں کہتا کہ دیکھو کسی کی بہو بیٹی کو مت دیکھنا، بلکہ اپنے دوستوں سے کہلادیتا ہے کہ بھئی دیکھو میرے بچوں کوسمجھادو کہ ذرا اِدھر اُدھر رومانٹک نظر نہ ڈالیں، ورنہ بحراٹلانٹک میں غرق ہوجائیں گے اور آؤٹ آف اسٹاک اور ڈینٹ فار اسٹک ہوجائیں گے۔ تو اﷲ تعالیٰ کااس میں عجیب معاملہ ہے۔ جو اﷲ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کہہ سکتا ہے کہ تم نماز پڑھو، تو وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ بدنگاہی نہ کرو،لیکن سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ فرمادیجیے۔ بس کیا کہوں کہ اس میں کیا کرم ہے! کیا ہماری آبرو کا خیال رکھا ہے! اﷲ تعالیٰ نے ہماری عزت کا خیال کیا کہ ان کو براہِ راست مت کہو، نبی سے کہلواؤ۔ صحابہ نے تو اپنی وفاداری صرف غض بصر سے نہیں، خونِ شہادت سے پیش کی اور ہم خونِ تمنا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک آرزو کا خون کرنا خونِ شہادت کے برابر ہوسکتا ہے؟ یہ تو آپ کے لیے آسان بھی ہے۔ وہاں تو خون بہہ رہا ہےاورہم اپنی آرزو کا خون نہیں کرسکتے، بتاؤ عبرت کی بات ہے یا نہیں؟ شہیدوں کے خونِ وفاداری سے سبق لینا چاہیے یا نہیں؟ کہ آج ہم اپنی آنکھوں کو بھی بچا نہیں سکتے یعنی آنکھ کی روشنی کو بھی اﷲ پر فدا نہیں کرسکتے، جبکہ صحابہ نے اپنی جان، اپنا مال، اپنی آبرو اور اپنا خون بھی فدا کردیا۔ یہ سبق بتاؤ! تازیانہ ہے یا نہیں، جن کو اﷲ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کی زیارت بھی نصیب فرمائی ان کو تو اور زیادہ رونا چاہیے۔ جس کو بھی زیارت نصیب ہو مدینہ شریف کی، جب _____________________________________________ 3؎النور:30