محبت الہیہ کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
میں تھک جاتا ہوں اپنی داستانِ درد سے اخترؔ مگر میں کیا کروں چپ بھی نہیں مجھ سے رہا جاتا اور ؎ کہاں تک ضبطِ غم ہو دوستو راہِ محبت میں سنانے دو تم اپنی بزم میں میرا بیاں مجھ کو کیا کہوں! بس سچ کہتا ہوں،بعض وقت اﷲ کی محبت بیان کرنے کے لیے مجھے لغت نہیں ملتی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں جن کا میں ادنیٰ شاگرد ہوں کہ جب اﷲ کا ذکر کرتا ہوں،تو عرشِ اعظم سے اﷲ کے نام کی خوشبو میری روح کو مست کرتی ہے،تو جلال الدین رومی انگریزی، فارسی، عربی، اردو کسی زبان میں ان کی غیر محدود لذت کی تعبیر کے لیے الفاظ نہیں پاتا۔ شعر یہ ہے ؎ بوئے آں دلبر چوں پراں می شود ایں زبانہا جملہ حیراں می شود اے دنیا والو! جب اﷲ کے ذکر سے اس مولیٰ کی خوشبو عرشِ اعظم سے نزول کرکے میری جان کو مست کرتی ہے، تو ساری دنیا کی لغت اﷲ کی محبت کی لذت کو بیان نہیں کرسکتی۔ بیان میں کیسے آئے گا اس لیے کچھ اشارہ کردیتا ہوں ؎ ہر شعر میرا غم ہے تمہارا لیے ہوئے اور دردِ محبت کا اشارہ لیے ہوئے اشارہ کر رہا ہوں، اصلی مزہ تو جب پاؤگے جب خود اﷲ والے بن جاؤگے۔ علم کے تین درجات اس لیے علم کے تین درجے ہیں۔ یہ وہ تقریر کر رہا ہوں جس میں میرے شیخ بھی موجود تھے،جس کو سن کر حضرت بہت خوش ہوگئے۔ علم کے تین درجے ہیں: ایک تو ہے علم الیقین جیسے شامی کباب یایہاں جو چیز بہت پسند کی جاتی ہے کھانے میں، بتاؤ کیا ہے؟ (سامعین نے آواز لگائی)’’فلائنگ فش‘‘ فلائنگ فش پسند ہے آپ لوگوں کو ؟ اچھا بھائی ٹھیک