عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
ہیں۔ اگر کعبہ کے ارد گرد درخت ہوتے تو رات کو حاجیوں کو کعبہ چھوڑ کر بھاگنا پڑتا۔ اللہ نے چاہا میرے عاشق رات دن میرے پاس رہیں، جب حج اور عمرہ کرنے آئیں تو کعبہ سے چپکے رہیں، ہمارے بندوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خوف سے کعبہ چھوڑنا نہ پڑے لہٰذا وہاں دن رات قدرتی آکسیجن رہتی ہے۔ اتنی زیادہ آکسیجن وہاں اللہ نے پیدا کی ہے کہ مُلک شام کے بڑے بڑے پہلوان جو آکسیجن میں ڈوبے رہتے تھے آئے اور صحابہ سے شکست کھاکر چلے گئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بہت زیادہ درخت اور مناظر ہوتے تو حاجی لوگ کعبہ چھوڑ کر کیمرا لیے ہوئے درختوں میں بیٹھے سینری لیا کرتے اور اس طرح وہ درخت حاجیوں کو اللہ سے دور کردیتے۔ اللہ نے چاہا کہ غیر اللہ کو مت چاہو، صرف مجھ سے محبت کرو، یہ توحید ہے۔ میرے اشعار ہیں ؎ گو حرم کے پہاڑوں پہ سبزہ نہیں ہیں مگر دوستو پاسبانِ حرم ورنہ حاجی درختوں میں بیٹھے ہوئے کیمرے میں لیا کرتے باغِ حرم ربِّ کعبہ سے بھی اور کعبہ سے بھی دور کردیت ے ہم کو جبالِ حرم ان پہاڑوں پہ بھی حفظِ توحید کا رب کی جانب سے ہے انتظامِ حرم درختوں پر تو قیامت آجائے گی، یہ سب اُجڑ جائیں گے لیکن میری محبت تمہیں جنت تک لے جائے گی اور دنیا کے جو ٹھاٹ باٹ ہیں سب فانی ہیں۔ قیامت کا زلزلہ دنیا کو فنا کردے گا لیکن جو مرگیا اُسی وقت اُس کی قیامت آگئی۔ پھر کہاں جاؤ گے آکسیجن لینے۔ آکسیجن تو زندگی کےلیے ہے۔ مرنے کے بعد مُردہ کو آکسیجن کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ انتظام کیا ہے کہ اُن کو یاد کرو ہمیشہ ہمیشہ ترو تازہ رہو گے۔ اگر مکہ شریف کے پہاڑوں پر درخت ہوتے تورات