عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
اٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ 3؎یعنی اللہ تعالیٰ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر ایمان لانے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا لازم کردیا۔ پس جس نے رسالت کا انکار کیا اُس نے اللہ کے حکم کا انکار کیا اس لیے منکرِ رسالت کافر ہے۔ عظمتِ رسالت کا انکار اللہ کا انکار ہے۔ اسی کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اللہ کا انکار ہے انکارِ محمد اقرار ہے اللہ کا اقرارِ محمد اسی لیے حدیثِ قُدسی میں اللہ نےفرمایا: اِذَاذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیْ جب میرا نام لیا جائے گا تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کا نام بھی لیا جائے گا۔ جب کوئی مؤذن اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہے گا تو اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ بھی کہے گا۔ ایک شاعر کہتا ہے ؎ اب مرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ یہ ہے عاشقوں کی عزت، عاشقوں کو اللہ نے یہ درجہ دیا ہے، اللہ اپنے عاشقوں کو عزت دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اللہ کا عاشق کوئی نہیں ہوسکتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اللہ کے سب سے بڑے عاشق ہیں ، آپ جیسا عاشق ہونا ناممکن ہے، آپ جیسا اللہ کا عاشق نہ کوئی ہوا، نہ ہے اور نہ قیامت تک ہوگا۔ آپ کی بے مثل شانِ عشق اس حدیث سے ظاہر ہے: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ 4 ؎حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان _____________________________________________ 3؎النسآء:136 4؎صحیح البخاری: 392/1 (2811) باب تمنی الشہادۃ،المکتبۃ المظہریۃ