ان حسینوں سے دل بچانے میں
میں نے غم بھی بڑے اُٹھائے ہیں
حسنِ فانی کے چکروں میں میر
کتنے لوگوں نے دن گنوائے ہیں
شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست
جن کو پہلے غزل سنائے ہیں
منزلِ قرب یوں نہیں ملتی
زخمِ حسرت ہزار کھائے ہیں
کام بنتا ہے فضل سے اخترؔ
فضل کا آسرا لگائے ہیں
آج ایک دعا کررہا ہوں جو آج تک روئے زمین پر کہیں نہیں مانگی جبکہ عمر ستر سال کی ہوگئی ہے الحمدللہ! ایک نئی دعا کی توفیق اللہ دے رہا ہے کہ اے اللہ! اے کریم! آپ کی رحمت سے اختر فریاد کرتا ہے اور مسافر کی فریاد کو آپ رائیگاں نہیں فرماتے، مسافر کی دعا کو آپ قبول فرماتے ہیں کہ ہم سب پر اور میرے احباب حاضرین اور ان کے گھر والوں پر اور میرے احباب غائبین اور ان کے گھروالوں پر فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ کی تجلی نازل فرمادے، اپنے عاشقوں کی قوم میں ہم سب کو داخل کرلے۔ آپ کے کلام کی اس آیتِ مبارکہ میں عاشقوں کی جو قوم پیدا کرنے کی بشارت ہے ہم سب کو اس میں شامل فرمادے اور یہ تجلی ہمارے دلوں پر نازل فرمادے، ہم سب کو جذب کرکے اپنا بنالے؎
نہ میں دیوانہ ہوں اصغرؔ نہ مجھ کو ذوقِ عریانی
کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو
اللہ تعالیٰ قبول فرمالے،آج یہی دعا مانگنے کو دل چاہتا ہے اور جو نہیں مانگا بے مانگے سب کچھ دے دے، مگر آج اختر آپ کی اس آیت کی تجلی کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک ہم پر، ہماری اولاد پر، ہمارے دوستوں پر، ان کی اولاد پر اور میرے احباب غائبین اور