یہاں عَلٰی کیوں آیا؟ ا س کا جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوانین علمائےنحو کے پابند نہیں ہیں۔علمائےنحو مخلوق ہیں، خالق مخلوق کی گرامر کا پابند نہیں ہے۔ اب رہ گیا یہ کہ اس میں مصلحت کیا ہے؟ تو مصلحت یہ ہے قیامت تک مخلوق کو معلوم ہوجائے کہ صحابہ نے جو اپنے کو مٹایاوہ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی ذلیل لوگ تھے۔ ان کا یہ تذلیل و فنائیت و انکساری مَعَ عُلُوِّ شَاْنِہِمْ وَفَضْلِ مَرَاتِبِہِمْ 8؎ تھا یعنی یہ انتہائی اعلیٰ درجے کے لوگ تھے، لیکن اس علو کے باوجود اپنے بھائیوں کے سامنے اپنے نفس کو مٹادیا۔ ان کے مٹنے سے، ان کی تواضع و فنائیت سے یہ نہ سمجھنا کہ یہ ذلیل لوگ ہیں، یہ بڑے علوِمراتب سے مشرف ہیں، اس لیے اللہ نے ان کا علیٰ قائم رکھا اور لام کا صلہ استعمال نہیں فرمایا۔ یہ ہے اللہ کے کلام کی بلاغت۔
اور ان کی علوِّ شان اور فضل مراتب کی دلیل یہ ہے کہ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یہ کافروں پر سخت ہیں۔ ان کی فنائیت اور تواضع اپنے اہلِ ایمان بھائیوں کے ساتھ ہے۔ اگر یہ فطرتاً ذلیل اور بزدل ہوتے تو کافروں پر سخت نہ ہوتے۔ اللہ کے دُشمنوں کے مقابلے میں یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ کافروں کے ساتھ جب جہاد ہوتا ہے تو اپنے کو حقیر نہیں ظاہر کرتے۔ جہاد میں خوب ہمت سے لڑتے ہیں اور بارڈر پر کافروں کے مقابلے میں یہ نہیں کہتے کہ کافر بھائیو! حقیر فقیر عبدالقدیر لڑنے کے لیے آیا ہے بلکہ کہتے ہیں اگر تم سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں۔ لیکن یہودی، عیسائی اور جملہ کفّار سے لین دین جائز ہے، مگر دل میں ان سے محبت رکھنا حرام ہے۔ معاملات جائز ہیں، موالات حرام ہیں۔ بزنس اور لین دین کا نام معاملات ہے جو جائز ہے مگر کافروں سے محبت حرام ہے۔ لہٰذا اس آیت سے پہلے اعلان ہوگیا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ 9؎ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اِنَّ مُوَالَاۃَ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی تُوْرِثُ الْاِرْتِدَادَ10؎ جویہودی اور عیسائی یعنی کافروں کو دوست بنائے گا وہ آخرش مرتد ہوجائے گا۔
_____________________________________________
8؎ روح المعانی:163/6 ،المائدۃ(54) داراحیاءالتراث،بیروت
9؎ المائدۃ:51
10؎ روح المعانی:160/6،المائدۃ(54)،داراحیاءالتراث،بیروت