نظر بچانے سے دل ٹوٹتا ہےتو عبادت کا نور شکستہ دل کے ذرّہ ذرّہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ حج، عمرہ، تلاوت و ذکر اور روزوں کا نور دل ٹوٹنے سے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ اس لیے شاعر کہتا ہے ؎
میکدے میں نہ خانقاہ میں ہے
جو تجلی دلِ تباہ میں ہے
یہ تو دوسرے کا شعر ہے۔ اب اختر کا شعر سنو؎
ہزار خونِ تمنا ہزار ہا غم سے
دلِ تباہ میں فرماں روائے عالم ہے
یہ بھی تو سوچو کہ کیا دیا اور کیا ملا؟ گناہوں کے چند کنکر پتھر چھوڑے اور مولیٰ کو پالیا، اس سے بڑھ کر اور کیا کرم ہوگا۔ اللہ نے اپنا دین بہت آسان بنایا ہے۔ تم غیراللہ کی گندگی دل سے نکال دو اور بدلےمیں اس پاک اللہ کو پاجاؤ ؎
نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوبؔ
خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتا
بس اگر اللہ کو چاہتے ہو تو غیراللہ کو نکالو۔ لَااِلٰہَ کی تشریح کیا ہے؟ میرا شعر ہے ؎
لَا اِلٰہَ ہے مقدم کلمۂ توحید میں
غیرِ حق جب جائے ہے تب دل میں حق آجائے ہے
ہر گناہ الٰہِ باطل ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ کوئی ناجائز ڈیزائن کتنی ہی اچھی ہو اس کو ریزائن دے دو، پھر لے لو اللہ کے خزائن،اور اگر ریزائن نہ کروگے تو ہوجاؤگے رام نرائن،اور رام نرائن پتھر کا بت پوجتا ہے اور تم چلتی پھرتی شکلوں کو پوج رہے ہو اور اس کے بعد جب شکل بگڑگئی تو پھر بھاگے وہاں سے الّو کی طرح۔ جب شکل بگڑ جاتی ہے تو ہندو اور عیسائی اور یہودی سبھی بھاگتے ہیں، تمہارا کیا کمال ہوا بلکہ باگڑ بِلّا ہوگئے بجائے عارف باللہ بننے کے۔ جس کو اللہ عارف باللہ بناتا ہے اس کا دل حسین شکلوں اور دنیائے فانی کی رنگینیوں سے سرد کردیتا ہے، لہٰذا جب اللہ کی محبت دل میں پاؤ اور یاد آئے کہ کبھی مرنا ہے اور قیامت کے دن اللہ کو حساب دینا ہے اور جس مالک نے ہم کو پیدا کیا ہے اگر ہم نے اپنے دل میں اس مالک کو نہ پایا اور مرگئے