آداب راہ وفا |
ہم نوٹ : |
|
آکر قضا با ہوش کو بے ہوش کر گئی ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی اور میرا ایک شعر اور ہے جس کو حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت پسند فرمایا تھا ؎ یوں تو دنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی دنیا سے خروج نہیں اخراج ہوتا ہے اس سفر میں جوہانسبرگ میں ایک عظیم علم عطا ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کا بلاوا آئے گا اور اس دنیا سے روانگی ہوگی تو آپ کا کتنا ہی شاندار مکان ہو، آپ کا اس مکان سے خروج نہیں اخراج ہوگا یعنی نکلیں گے نہیں،نکالے جائیں گے۔اور نکالنے والے کون ہوں گے؟ یہی اپنے بیوی بچے، جن پر ہم مررہے ہیں، جن کے لیے ہم حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے، وہی کہیں گے کہ ابا کو جلدی سے گھر سے نکالو، کہیں لاش سڑ نہ جائے۔ آہ! ایک دن آنے والا ہے جب اپنے شاندار مکانوں سے ہم نکلیں گے نہیں، نکالے جائیں گے، لیکن جن کے دل میں مولیٰ ہے وہ بڑے مزے میں جائیں گے، ہنستے ہوئے،مسکراتے ہوئے کہ الحمدللہ! مکان اور کاروبار تو چھوٹ رہا ہے لیکن ہم اپنے مولیٰ کو ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ تعمیرِ وطن آخرت کے لیے ایک سبق آموز حکایت ایک بہت احمق اور بے وقوف لوگوں کی بستی تھی، وہ اپنے بادشاہ کا انتخاب قابلیت پر نہیں کرتے تھے بلکہ جو راستےمیں مل گیااس کو بادشاہ بنادیا اور سال دو سال کے بعد اس بادشاہ کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کے ایک بہت بڑے جنگل میں پھینک آتے تھے اور وہ راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مرجاتا تھا۔ ایک دفعہ اسی طرح ایک آدمی کو پکڑلیا اور کہا کہ آپ کو بادشاہ بنانا ہے کیوں کہ ہمارا بادشاہ کل ہی جنگل باشی بنایا گیا ہے یعنی جنگل کا باشندہ بنایا گیا ہے۔