آداب راہ وفا |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ ہماری محبت کے صدقے میں تم باوفا بنوگے۔ علامہ آلوسی نے اس سوال کا یہی جواب دیا کہ قَدَّمَ اللہُ تَعَالٰی مَحَبَّتَہٗ عَلٰی مَحَبَّۃِ عِبَادِہٖ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو اپنے بندوں کی محبت پر اس لیے مقدم فرمایا تاکہ صحابہ جان لیں کہ اِنَّہُمْ یُحِبُّوْنَ رَبَّہُمْ بِفَیْضَانِ مَحَبَّۃِ رِبِّہِمْ 4؎ کہ یہ اپنے رب کی محبت کے فیضان کے صدقے میں مجھ سے محبت کررہے ہیں اور فرمایا کہ میری محبت کی تین علامات ظاہر ہوں گی۔ جو لوگ محبت محبت تو کہتے ہیں لیکن محبت اس وقت تک نہیں جب تک اس میں شدت نہ ہو۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ محبت محبت تو کہتے ہیں لیکن محبت نہیں جس میں شدت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کے لیے اشد محبت کی قید ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِلہِ 5؎اگر بال بچوں کی، مال و دولت کی،سموسوں اور پاپڑ کی محبت شدید بھی ہو تو کچھ حرج نہیں بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہو، کچھ فیصد زیادہ ہو۔ بال بچوں کی، کاروبار کی، بیوپار کی محبت اگر شدید ہے تو بس اللہ کی محبت اشد ہو۔ ۴۹ فیصد اگر کاروبار کی محبت ہے بس ۵۱ فیصد اللہ تعالیٰ کی محبت ہو تو اسے اشد محبت اللہ کی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی تین علامات تو اللہ تعالیٰ نے اہل محبت کی تین علامات بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی محبت اسدرجے کی ہم سب کو عطا فرمادیں کہ یہ تین علامات ہمارے اندر بھی آجائیں: _____________________________________________ 4 ؎روح المعانی:162/6،المائدۃ(54) ،داراحیاءالتراث،بیروت 5 ؎البقرۃ: 165