بعثت نبوت کے مقاصد |
ہم نوٹ : |
|
کی توبہ مانگ رہے ہیں۔ علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں اتنے بڑے اشکال کو دو جملوں میں حل کردیا کہ پیغمبروں کی توبہ لِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ وَالتَّرَقِیِّ فِی الْمَقَامَاتِ ہے یعنی رفع درجات اور مقامِ قرب میں ترقی کی درخواست ہے۔ اَلتَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ کے تقدّم و تأخّر کے دو عجیب نکتے اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ اور بے شک آپ تَوَّابْ بھی ہیں رَحِیۡمْ بھی ہیں، یعنی آپ توجہ فرمانے والے، مہربانی فرمانے والے ہیں۔مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تَوَّابْ کو پہلے کیوں نازل کیا اور رَحِیۡمْ کو بعد میں کیوں نازل کیا؟ اس کا عجیب نکتہ بیان فرمایا جو قابلِ وجد ہے۔ دوستو! سن لو پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اس تقدم و تأخر کا راز یہ ہے کہ جس پر اللہ رحمت نازل کرتا ہے اسے پہلے توفیق توبہ دیتا ہے۔ تَوَّابْ کواللہ تعالیٰ نے اس لیے مقدم فرمایا کہ ہم جس پر رحمت نازل کرتے ہیں پہلے اس کو توفیقِ توبہ دیتے ہیں اور توبہ کے ساتھ ہی رحمت نازل فرماتے ہیں۔ توفیق توبہ اور نزولِ رحمت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آگے آگے توفیق توبہ اور ساتھ ملا ہوا نزولِ رحمت۔ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے جار اور جیران یعنی پڑوسی ہیں، ایک دم ملے ہوئے آتے ہیں۔ توفیقِ توبہ اور رحمت کا نزول ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ جس نے اللہ سے معافی مانگ لی وہ سایۂ رحمت میں آگیا،ایک سیکنڈ کی دیر نہیں ہوتی۔ توفیق توبہ شروع ہوئی، بندے نے استغفراللہ کہا اور نزولِ رحمت ساتھ ساتھ شروع ہوگیا۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں ہوتی۔ لیکن توفیقِ توبہ چوں کہ مقدم ہے خواہ ایک سیکنڈ ہی کے درجے میں سہی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تَوَّابْ کو مقدم کیا اور رَحِیۡم کو مؤخر فرمایا۔ فرقۂ معتزلہ کا رد دوسری وجہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان فرمائی کہ فرقۂمعتزلہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس نے یہ دعویٰ کیا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی توبہ قبول کرنا قانوناً لازم ہے، اس کو معاف کرنا اللہ پر نعوذباللہ! فرض ہے۔ اس لیے چودہ سو برس پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ دو لفظ تَوَّابْ اور رَحِیۡم نازل فرمائے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ آیندہ ایک نالائق فرقہ معتزلہ پیدا ہوگا جو ایسا بے ہودہ دعویٰ کرے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ تَوَّابْ اور