بعثت نبوت کے مقاصد |
ہم نوٹ : |
|
وسط ہے دنیا کا اور اَرِنَا مَنَاسِکَنَا دو پیغمبروں کی دُعا ہے، لہٰذا ان کی دعا کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبرئیل علیہ السلام تمام مناسکِ حج اور پورا طریقہ حج وغیرہ کا بتایا۔آج ہم لوگ جو حج کررہے ہیں یہ پورا طریقہ جبرئیل علیہ السلام کا بتایا ہوا ہے جس سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو آگاہ فرمایا۔ تفسیر تُبْ عَلَیْنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اور ہم پر توجہ فرمایئے یعنی اپنی توجہ و مہربانی کو ہم پر قائم رکھیے۔ تُبْ عَلَیْنَا کی تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے اَیْ وَفِّقْنَا لِلتَّوْبَۃِ 7؎ یعنی ہم کو توفیقِ توبہ دیجیے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے مراد توفیقِ توبہ ہے۔جس کو توفیقِ توبہ نہیں ہے وہ اللہ کی رحمت اور مہربانی سے بہت دور ہے، مقامِ بُعد میں مبتلا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی توبہ سے کیا مراد ہے؟ یہاں پر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اشکال قائم کیا ہے کہ پیغمبر سے تو گناہ کا ارتکاب نہیں ہوسکتا کیوں کہ نبی تو معصوم ہوتا ہے۔پھر یہاں دونوں پیغمبر کیوں توفیقِ توبہ مانگ رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ دیا کہ عوام کی توبہ اور ہے، خواص کی توبہ اور ہے اور یہاں نہ عوام کی توبہ مراد ہے نہ خواص کی بلکہ یہ اخص الخواص کی توبہ ہے۔ یعنی عام مسلمانوں کی توبہ ہوتی ہے گناہوں سے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ اورخواص اُمت کی توبہ ہوتی ہے غفلت سے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِ اور یہ توبہ اخص الخواص کی ہے یعنی پیغمبروں کی توبہ ہے، جس کا ترجمہ ہوگا اور ہمیں توفیقِ توبہ دیجیے۔ لِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ وَالتَّرَقِیِّ فِی الْمَقَامَاتِ یعنی ہم قرب کے جس مقام پر اب ہیں اس میں اور ترقی عطا فرمایئے اور ہم دونوں کے درجات اور بلند کردیجیے، ہمارے مقامِ قرب میں اور ترقی دیجیے۔ دیکھیے تفسیر روح المعانی اور خوب سمجھ لیں کہ یہ توفیق توبہ گناہ سے نہیں ہے کیوں کہ نبی معصوم ہوتے ہیں، ان سے گناہ صادر ہی نہیں ہوتے۔ اگر اکابر کی تفاسیرنہ دیکھی جائیں تو آدمی کو اشکال پیدا ہوجائے گا کہ پیغمبر آخر کس بات _____________________________________________ 7؎روح المعانی:386/1،البقرۃ(127)،داراحیاءالتراث،بیروت