بعثت نبوت کے مقاصد |
ہم نوٹ : |
|
حکیم الاُمت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ سے کیا مراد ہے؟ کیوں کہ مسلمان تو وہ تھے ہی،پیغمبر تو مسلمان ہی ہوتا ہے۔ وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ ہم کو مسلمان بنادیجیے، بلکہ یہ معنیٰ ہیں کہ مسلمان تو ہم ہیں ہی اے اللہ! ہم دونوں کو آپ اپنا زیادہ مطیع و فرماں بردار بنالیجیے۔ ہمارے اخلاص میں اور زیادہ ترقی عطا فرمایئے۔ جو ایمان و یقین اور اطاعت و اخلاص اس وقت ہمیں حاصل ہے اس سے اور زیادہ اعلیٰ درجے کا عطا فرمادیجیے۔ یہاں یہ مراد ہے، اس لیے صرف ترجمہ دیکھنا کافی نہیں، ترجمہ کے ساتھ تفسیر دیکھنا بھی ضروری ہے اور تفسیر میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو علماء سے پوچھنا چاہیے ورنہ آدمی بالکل غلط معنیٰ سمجھتا ہے۔ مُسْلِمَیْنِ کے بارے میں وہ سوچے گا کہ نبی تو مسلمان ہوتے ہی ہیں پھر وہ مُسْلِمَیْنِ لَکَ کی دعا کیوں کررہے ہیں؟ لیکن تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد اخلاص و اطاعت و فرماں برداری میں ترقی کی طلب ہے۔ تمام مناسکِ حج وحی سے بتائے گئے وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا اور ہم کو حج کے احکام بھی بتلادیجیے کہ حج کس طرح کیا جائے؟ طواف کس طرح کریں؟ منیٰ میں کب قیام کیا جائے؟ اور وقوفِ عرفات کا دن اور وقت اورقیامِ مزدلفہ،غرض حج کے پورے احکام اور طریقے ہمیں بتادیجیے۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا میں تمام احکامِ حج شامل ہیں۔ اس لیے مفسرین لکھتے ہیں کہ آپ حج میں جتنے کام کرتے ہیں یہ کوئی من گھڑت اور خیالی پلاؤ نہیں ہے، بلکہ جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے حج کا پورا طریقہ اور احکام بتائے۔ کعبہ شریف زمین کے بالکل وسط میں ہے اور کعبہ شریف جہاں واقع ہے وہ پورے عالَم کا وسط ہے۔ آج دنیائے سائنس اور پوری دنیائے کفر حیران ہے کہ زمین کے بالکل بیچوں بیچ، بالکل وسط میں کعبہ شریف کیسے بنایا گیا، جبکہ اس وقت پیمایش کے آلات نہیں تھے، سائنس کی ترقی نہیں تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعےحضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتادیا کہ یہاں کعبہ کی بنیاد رکھو جو