بعثت نبوت کے مقاصد |
ہم نوٹ : |
|
میں خاصیت تکلّف کی ہے جس کے معنیٰ ہوئے کہ بہ تکلّف قبول فرمالیجیے۔ ہماری قابلیت کو نہ دیکھیے، آپ کی عظمتِ غیرمحدود کے شایانِ شان ہماری تعمیر نہیں ہے۔آپ کے کعبہ مکرمہ کی جو شان ہے ویسی تعمیر ہم سے نہ ہوسکی۔ لیکن آپ ازراہِ کرم قبول فرمالیجیے۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کی تفسیر اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ آپ سننے والے جاننے والے ہیں۔ان دو ناموں سَمِیْعْ اور عَلِیْمْ کے نزول کی وجہ بیان کی کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی یہ دو صفات کیوں نازل فرمائیں؟ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یعنی اَلسَّمِیْعُ لِدَعَائِنَا آپ ہماری دعا کو سن رہے ہیں، وَالْعَلِیْمُ بِنِیَّاتِنَا اور ہماری نیت سےآپ باخبر ہیں کہ ہم نے آپ ہی کے لیےیہ کعبہ بنایا ہے۔ سبحان اللہ! کتنی پیاری تفسیر کی۔ سَمِیْعٌ و عَلِیْمٌ کا ربط سَمِیْعْ اور عَلِیْمْ میں ایک خاص ربط ہے۔ دنیا میں آدمی بعض وقت سنتا تو ہے لیکن دل کے حال سے باخبر نہیں ہوتا۔ سَمِیْعْ تو ہوتا ہے عَلِیْمْ نہیں ہوتا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کے سامنے اس کی خوب تعریف کررہا ہے لیکن دل میں بغض رکھتا ہے، تو دوسرا شخص سن تو رہا ہے لیکن دل کے بغض سے بے خبر ہے۔ سَمِیْعْ تو ہے عَلِیْمْ نہیں،اور اللہ تعالیٰ کے لیےیہ محال ہے۔کیوں کہ وہ ہر ظاہر و باطن سے باخبر ہیں۔ لہٰذا دونوں پیغمبروں نے سَمِیْعْ کے بعد عَلِیْمْ فرمایا کہ آپ ہماری دعا کو سن بھی رہے ہیں اور ہمارے دل کے حال سے بھی باخبر ہیں کہ ہم نے صرف آپ کے لیے کعبہ تعمیر کیا ہے۔ رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ سے کیا مراد ہے؟ اس کے بعد دونوں پیغمبروں نے دعا مانگی: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ 6؎ _____________________________________________ 6؎البقرۃ:128