علامات مقبولین |
ہم نوٹ : |
|
حضرتِ والا نے فرمایا کہ اس شعر کی بلاغت میں بھی غور کیجیے، فتنہ گر اورفتنہ ساماں ان الفاظ کی قدر بڑے بڑے شاعروں سے پوچھو۔ دُمِ خر یعنی پیری کی و جہ سے اس دارِ فانی میں وہ زلف سیاہ بڈھے گدھے کی دُم بن گئی، جوایسی فتنہ ساماں تھی کہ کالی گھٹا نظر آرہی تھی، مگر اس میں فرق یہ ہے کہ کالی گھٹا تو خود برستی ہے اور یہاں جو کالی گھٹا دیکھتے ہیں وہ برستے ہیں۔ (حضرتِ والا کے اس جملے کی بلاغت پر سامعین قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ جامع) بتائیے! میرایہ مضمون کس قدر لطیف ہے کہ کالی گھٹا جو ہوتی ہے وہی برستی بھی ہے اوردیکھنے والوں پر برستی ہےاور یہاں معاملہ اُلٹا ہے کہ کالی گھٹا تو کہیں ہے اور برستے ہیں دیکھنے والے ؎جو غمزہ شہرۂ آفاق تھا کل خوں فشانی میں وہی عاجز ہے پیری سے خود اپنی پاسبانی میں ارشاد فرمایا کہ غمزہ آنکھوں سے اشارہ کرنے کو کہتے ہیں جو معشوقوں کی خاص ادا ہے، کیوں کہ ان کی پلکیں بھی قاتل ہوتی ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسینوں سے نظر بچاؤ، ان کی ایک ایک پلک میں سوسو تیرا ور کمان پوشیدہ ہوتے ہیں ؎صد کمان و تیر درجِ ناو کے مولانا رومی رحمہ اللہ کودیکھو کہ کس قدرحُسن کے عارف تھے ۔ کمالِ معرفتِ حسن وعشق کے باوجود حسنِ فانی سے بچے رہنے سے تقویٰ کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ ایک تو وہ شخص ہے جیسے بھینس کہ اس کے آگے بین بجاؤ وہ کھڑی جگالی کرتی رہے گی، جھاگ نکالتی رہے گی، اسے پتا ہی نہیں کہ بین کی آواز کیسی ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ ہیں کہ ان کو حُسن کا زیادہ ادراک نہیں ہوتا، ان کامجاہدہ کمتر درجے کا ہوتا ہے اور جس کو حُسن کا ادراک زیادہ ہوتا ہے اس کا مجاہدہ شدید ہوتا ہے، تو اس کا مشاہدہ بھی اتنا ہی قوی ہوتاہے اور اس کا قلب نہایت قوی انوار وتجلیاتِ اِلہٰیہ کا مورد ہوتا ہے، اسی کو میں نے ایک شعر میں کہا ہے ؎تجلی ہر ایک دل کی اخترؔ الگ ہے مہربانیاں جیسی قربانیاں ہیں جتنی جس کی قربانی اتنی خدا کی مہربانی ؎