علامات مقبولین |
ہم نوٹ : |
|
قیامت کے دن کے سوالات کو یاد کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کے متعلق پوچھیں گے کہ تم نے فلاں کو بُری نظر سے کیوں دیکھا تھا؟ تم کو زندگی میں نے کس لیے دی تھی؟ جوانی کس لیے دی تھی؟ تم نے مقطع صورت میں کون سا کام کیا؟ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں تم نے ننگِ یزید کام کیوں کیا؟ پس اللہ کے حساب سے ڈر کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال سے ڈرنے والے اور چوتھی تفسیر ہے ذَکَرُوْا جَلَالَہٗ فَھَابُوْا اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو یاد کرتا ہے کہ جس نے شیر پیدا کیا کہ اگرشیر دھاڑدے تو آدمی ڈر کے مارے بے ہوش ہو کر گر پڑے، چاہے شیر کٹہرے میں بند ہو۔ حالاں کہ جانتا ہے کہ شیر باہر نہیں آسکتا مگر پھر بھی آواز سے بے ہوش ہو جائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے اللہ کی جلالتِ شان کو یاد کرکے ڈر جاتے ہیں کہ جب اس کی ادنیٰ مخلوق کا یہ حال ہے تو جو شیر کا خالق ہے اس کے جلال کا کیا عالم ہوگا۔ آیت فَدَمْدَمَ عَلَیْھِمْ …الخ کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کی نافرمانیوں کے بدلے میں جب عذاب نازل کیا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں کیا طاقت ہے؟ فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان نافرمانوں کے گناہ کے سبب ان پر ہلاکت نازل فرمائی پھر ان کو برابر کردیا یعنی اس ہلاکت کو پوری قوم کے لیے عام کردیا کہ کوئی بھی بچنے نہ پایا اور اس کا نام ونشان تک نہ رہا۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے آج دشمن کو برابر کردیا یعنی ایسا تباہ وبرباد کیا کہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہا۔ جن کو اپنی قوت پر ناز تھا آج ان کا اور ان کی بڑی بڑی عمارتوں کا کہیں نشان نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک ایسی شان نازل کی جو پوری کائنات میں کسی بھی عظیم الشان مملکت والے بڑے سے بڑے بادشاہ کو چاہے وہ پوری دنیا کا مطلق العنان بادشاہ ہو حاصل نہیں، وہ صر ف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب نازل کرنے کی طاقت کے ذیل میں بیان فرمارہے ہیں کہ جس قوم پر اس کے گناہ کے سبب ہم نے عذاب نازل کیا اور اس کانام ونشان مٹا دیا تو دنیوی بادشاہ تو کسی قوم کو سزادے کر ڈرتے رہتے ہیں