علامات مقبولین |
ہم نوٹ : |
|
جو عارض آہ رشکِ صد گلستاں تھا جوانی میں وہ پیری سے ہے ننگِ صد خزاں اس باغِ فانی میں عارض گال کو کہتے ہیں۔حُسنِ عارض کے عارضی ہونے پر میرا ایک شعر ہے جس کی حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خسر ڈپٹی علی سجاد صاحب جو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم زلف تھے ، ان دونوں بزرگوں نے بہت تعریف کی تھی۔ وہ شعریہ ہے ؎ان کے عارض کو لغت میں دیکھو کہیں مطلب نہ عارضی نکلے وہ جانِ حسن جو تھا حکمراں کل بادشاہوں پر ہے پیری سے بغاوت آج اس کی حکمرانی میں یعنی جو حُسن بادشاہوں پر حکمرانی کرتا تھا اور بادشاہ جس کے بندۂ بے دام تھے، آج بڑھاپے میں اس کے حسن کی مملکت میں خود بغاوت ہے، کالے بال سفید ہو کر اس سے بغاوت کررہے ہیں، دانت ٹوٹ کر باغی ہورہے ہیں، گال پچک کر خود اس کے حسن کو ٹھینگا دکھا رہے ہیں، حکومتِ حُسن کے تخت کا تختہ ہوگیا ؎وہ نازِ حُسن جو تھا زینتِ شعرو سخن کل تک وہ اب پیری سے ہے محصور کیوں ریشہ دوانی میں یعنی کل تک شعرا جس کے حُسن سے اپنے شعروں کو سجاتے تھے، اب جب حُسن زائل ہوگیا تو اسی کے عیب بیان کررہے ہو کہ صاحب ناک چپٹی ہے، آنکھیں چھوٹی ہیں، وزن میں بھاری ہے، اب اسی حُسن کے خلاف ریشہ دوانیاں، عیب جوئیاں اور عیب گوئیاں ہورہی ہیں، بس حُسنِ فانی بہت بڑا دھوکا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت باقی رہنے والی ہے، باقی تمام محبتیں فانی ہیں ؎اگر ہے عشق تو بس عشقِ حَیّ لَایَزل باقی محبت عارضی ہوتی ہے عشقِ حُسنِ فانی میں