علامات مقبولین |
ہم نوٹ : |
|
علاماتِ مقبولین اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ 1؎وعظ سے پہلے راقم الحروف نے مرشدی ومولائی عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہم العالی کےحکم پر حضرتِ والا کے اشعار سنائے، جن کا عنوان تھا کہ ’’کلامِ عبرتناک برائے عشقِ ہو سناک‘‘اور حضرتِ والا نے بعض اشعار کی شرح بھی فرمائی۔ اشعار مع شرح یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ پہلا شعر تھا ؎وہ زلف فتنہ گر جو فتنہ ساماں تھی جوانی میں دُمِ خر بن گئی پیری سے وہ اس دارِفانی میں حضرت والا نے فرمایا کہ انسان کو اپنا بچہ جتنا پیارا ہوتا ہے ، شاعر کو اپنا شعر ویسا ہی پیارا ہوتاہے اوروہ اپنے بچے کی طرح اپنے شعر کو چومتا ہے۔احقر راقم الحروف نے عرض کیا کہ حضرت! اشعار بھی ایسے ہیں کہ دُنیائے غزل میں بے مثال ہیں۔ ایسے اشعار نظر سے نہیں گزرے جن میں فنائیت ِحُسن کو اتنے حسین انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ حُسنِ فانی کی تعریف کرنا تو آسان ہے لیکن حُسنِ فانی کا رَد اور اس کی فنائیت کا اس انداز میں اظہار کہ شعر کا حُسن ولطافت مجروح نہ ہو اور حُسنِ فانی سے دل متنفرہو جائے ، یہ حضرتِ والا ہی کاکمال ہے۔ _____________________________________________ 1؎اٰل عمرٰن :135