تزکیۂ نفس
لَا اِلٰہَ سے اِلَّا اللہُ تک
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَا مٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، اَمَّا بَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا
رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا1؎
حضراتِ سامعین! ابھی آپ کے سامنے جن آیات کی تلاوت کی گئی اس سلسلہ میں حضراتِ محققین نے فرمایا کہ ان آیات کے اندر تزکیۂ نفس کے منازل کو اللہ تعالیٰ نے عجیب انداز میں بیان فرمایا ہے۔ وَاذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَحق سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارا نام لو۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ محمد اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں عجیب انداز، عجیب عنوان سے فرمایا کہ اپنے رب کا نام لیجیے۔ یہاں رب کیوں فرمایا؟ رب کے معنیٰ ہیں پالنے والا اور پالنے والے سے فطرتاً محبت ہوتی ہے، اسی لیے اپنے ماں باپ سے ہر انسان کو محبت ہوتی ہے۔اس عنوان سے بیان کرکےگویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ میر انام محبت سے لیا کرو کیوں کہ میں ہی تمہارا پالنے والا ہوں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں ؎
_____________________________________________
1؎ المزمل: 8 - 10