مناسب نہیں، اور جب حالتِ سفر نہ ہو تو مقدار و کمیت پوری کیجیے۔ اور دوسری چیز کیفیت ہے۔ اللہ کا نام محبت سے لیا جائے، اور اس کی حسّی مثال حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے پیش فرمائی کہ اگر آپ کو ایک گلاس پانی کی پیاس ہے لیکن کوئی ایک چمچہ پانی پیش کرے تو کیا پیاس بجھے گی؟ معلوم ہوا کہ مقدار بھی پوری ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر پانی تو ایک گلاس بھر کر دیا، مقدار تو پوری کی مگر دھوپ کا جلا ہوا گرم پانی ہو تو بھی پیاس نہیں بجھے گی کیوں کہ کمیت تو صحیح تھی لیکن کیفیت نہیں تھی۔ اسی طرح ذکر کی کمیت و مقدار بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو تب نفع کامل ہوتا ہے، جس طرح ہم آپ جسمانی غذاؤں میں سوچتے ہیں کہ کمیت بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو۔ مثلاً کباب ہے، اگر وہ ٹھنڈا ہو فریج کا تو مزہ آئے گا؟ گرم کباب ہو، گرم سالن ہو تو مزہ زیادہ آتا ہے۔
گرم کھانے کی ممانعت کا مفہوم
اس پر ایک واقعہ یاد آیا کہ بمبئی میں ایک صاحب نے کہا کہ حدیث شریف میں ہے کہ کھانا گرم مت کھاؤ اور مشکوٰۃ شریف لاکر حدیثِ پاک بھی دکھا دی،کیوں کہ فاضل دیوبند تھے۔ میں نے کہا کہ اس کی شرح مرقاۃ لائیے۔ جب شرح دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ صحابہ کھانے کو تھوڑی دیر ڈھانک کر رکھ دیتے تھے۔ تَذْھَبُ فَوْرَۃُ دُخَانِہٖ اَیْ غَلَیَانُ بُخَارِہٖ وَکَثْرَۃُ حَرَارَتِہٖ6؎ یعنی تیزی اور شدت گرمی کی نکل جائے، ایسا نہ ہو کہ بھاپ نکل رہی ہو اور منہ جل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیثِ پاک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹھنڈا کھانا کھاؤ۔
تب ان مولانا نے کہا کہ جَزَاکَ اللہْ اور پھر مَاشَاءَ اللہْ میرے ہر بیان میں شریک رہے اور میرے کان میں کہا کہ اگر آج اس کی شرح آپ نہ بتاتے تو بہت سے اکابر کے عمل پر شبہ ہوجاتا کیوں کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب تو گرم گرم چپاتی بار بار منگاکر کھاتے ہیں۔ ہم کو شبہ ہوگیا تھا کہ ہمارے اکابر گرم کھانا کیوں پسند کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کمیت بھی پوری کرے اور کیفیت بھی پوری ہو
_____________________________________________
6؎ مرقاۃ المفاتیح:140/8،کتاب الاطعمۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت