ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
مجھ سے اُنہوں نے اپنایہ خواب ظاہر کیا تومیں نے اُن سے کہا کہ اِس خواب کی بناء پر ہر گز ایسا نہ کرنا اور یہ جو تم نے خواب دیکھاہے یہ حضور ۖ کا فعل نہیں بلکہ تمہارا فعل ہے جوحضور ۖ کی ذاتِ مبارک کے آئینہ میں متمثل ہوا، سو اَوّل تو خواب حجت نہیں دُوسرے یہ خواب اپنی ظاہری صورت پرنہیں بلکہ صورتِ مثالی پر ہے لہٰذا قابلِ عمل نہیں۔ اِسی طرح مدرسہ دیو بند کا ایک قصہ ہے کہ ''دارُ العلوم میں ایک مرتبہ ایک طالب علم آئے جو مدرسہ میں داخل ہونا چاہتے تھے چنانچہ اُن کوداخل کرلیا گیا مگر وہ اِس پر مُصِرتھے کہ میں'' شرح جامی'' پڑھوں گا، حالانکہ جب اُن کا اِمتحان لیا گیاتو معلوم ہوا کہ ابھی اُن کے اَندر ہر گز اِستعداد نہیں کہ شرح جامی پڑھ سکیں بلکہ اَوّل اُن کونحو کی کوئی اِبتدائی کتاب پڑھنا ضروری ہے تو جب اُن سے کہا گیا کہ تمہارے اَندر ابھی اِتنی اِستعداد نہیں کہ تم شرح جامی پڑھ سکو لہٰذا فی الحال تم کوشرح جامی میں شریک نہیں کیا جا سکتا وہ اُس وقت خاموش ہوگئے اگلے روز اُنہوں نے بیان کیا کہ میں نے جنابِ رسول مقبول ۖ کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ تم شرح جامی پڑھو لہٰذا مجھ کوشرح جامی پڑھنے کی اِجازت دی جائے۔ تومولانامحمودحسن صاحب رحمة اللہ علیہ نے اُن کویہ جواب دیا کہ حضور ۖ کے اِس اِرشاد کے متعلق توہم حضور سے خود عرض معروض کرلیں گے مگر تم کو فی الحال شرح جامی کی بجائے نحو کی کوئی اِبتدائی کتاب ہی پڑھنی ہوگی، سو اِس جواب کا حاصل بھی یہی ہے کہ ہم دعوی رُؤیت کی تکذیب نہیں کرتے لیکن اِس کا کیا اِطمینان ہے کہ اُنہوں نے اِرشادکو صحیح سنا اورسمجھا بھی۔ '' ( ملفوظ نمبر ١٣٦ مشمولہ ملفوظات حکیم الامت ج ٩ ص ١٢١ ، ١٢٢ طبع ملتان )