ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
''........... آج کل لوگ خواب کواِس قدر بڑی چیز سمجھتے ہیں کہ اِتنی وقعت لوگوں کے ذہنوں میں وحی کی بھی نہیں حالانکہ اَوّل تو ہمارا خواب ہی کیاہے ! ہمارے خواب کی حقیقت تواکثر یہ ہوتی ہے کہ دن بھر کے جوخیالات ہمارے دماغ میں بسے ہوئے رہتے ہیں وہی رات کوسوتے میں اُسی صورت میں یا کسی دُوسری صورت میں نظر آجاتے ہیں اور اگرکوئی خواب تصرفِ نفسانی یاشیطانی سے پاک بھی ہو اور واقعی وہ خواب اَزقبیل رُؤیائے صالحہ ہی ہو تب بھی شریعت میں ایسے خواب کا درجہ صرف اِتنا ہے کہ حدیث میں اِس کو'' مُبَشِّرَاتْ '' فرمایا گیاہے کہ اگر اِس خواب کے اَندر کوئی اچھی بات نظر آئے تووہ خواب ایک دل خوش کن چیزہے نہ یہ کہ وہ کوئی شر عی حجت ہے اور اُس کادرجہ اَحکامِ شرعیہ کے برا بر ہے بلکہ اگر کوئی خواب ایسا ہو کہ اُس پرعمل کر نے سے کسی حکم ِ شرعی کی مخالفت لازم آتی ہو تو ہر گز ایسے خواب پر عمل کرنا جائز نہ ہو گا۔ اِسی مضمون کے سلسلہ میں یہ بھی اِرشاد فرمایا کہ مصر کے اَندر ایک بار کسی مسلمان نے خواب دیکھا تھاکہ '' حضور ۖ اُس شخص سے اِرشاد فرما رہے ہیں کہ اِشْرَبِ الْخَمْرَ یعنی تو شراب پی۔ تواُس شخص نے علماء سے تحقیق کیاتو علمائے مصر نے بااِتفاق جواب دیا کہ ہر گز حلال نہیں بلکہ تم کوحضور کا اِرشاد یاد نہیں رہا۔ '' اور اگر میں اُس مجمع میں ہو تا توجواب دیتا کہ اگر صحیح بھی یادہو تا تب بھی شراب سے یہ دُنیوی شراب مراد نہیں بلکہ شراب سے مراد شرابِ محبت ہے یعنی مطلب حضور ۖ کا یہ ہے کہ تم خدا و رسول کی محبت اپنے اَندر پیدا کرو۔ اِسی طرح خواب کوغلط سمجھنے کاایک واقعہ کا نپور کا ہے کہ '' وہاں ایک شخص در ویش تھے جوحقہ پیتے تھے پھر اُنہوں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور ۖ کے سامنے بیچوان یعنی حقہ رکھا ہوا ہے، اِس خواب سے وہ یہ سمجھے کہ حضور ۖ مجھ کو فعلاً اِجازت دے رہے ہیں کہ تم حقہ پینا پھر شروع کر دو۔''