ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
اعلان کر دیا کہ اِس سال اِس مسجد سے تعزیہ نہیں اُٹھے گا، یہ کوئی معمولی اعلان نہ تھا، دیوبند کی شیعہ آبادی ہی نہیں بلکہ تعزیہ پرست سُنیوں میں بھی اِس اعلان سے کھلبلی مچ گئی اور اِس محلہ کے شیوخ بگڑ گئے اور کہا کہ سر قلم ہوجائیں گے مگرتعزیہ اُٹھے گا۔ یہ سن کر دیوان جی کی زبان سے بھی بے ساختہ یہ فقرہ نکلا کہ اگر گزرا تو میری لاش پر سے گزرے گا، پھر بتدریج محلہ سے آگے بڑھ کرفتنہ کی آگ سارے قصبے میں پھیل گئی اور شیوخ کی برادری دیوان جی کے خلاف متحدہوگئی۔ حضرت (نانوتوی) کے علم میں جب یہ آیا اور معلوم ہوا کہ موقع پر شہر میں عظیم ترین ہنگامہ بپا ہونے کاخطرہ ہے توایک دِن جب دیوان جی حضرت والاکی مجلس مبارک میں حاضر تھے اور اِسی مجلس میں شہر کے اَکابر شیوخ اور دُوسری بر داریوں کے بڑے موجود تھے، سیّدنا الامام الکبیر حضرت مولانا محمد قاسم نا نو توی دیوان جی کو مخاطب بنا کر فرمانے لگے کہ : ''بندہ ٔ خدا اگر ایساہی کرنا تھا تو کم اَز کم مجھ سے ذکر توکر لیا ہوتا۔ '' یہ بات تو دیوان جی سے کہی گئی اوراِس کے بعد اُسی بھری مجلس میں حضرت والا کی طرف سے بھی عام اعلان فرما دیا گیاکہ : ''لیکن خیراَب ایساکہہ دیاگیاہے تو دُوسرا سر قاسم کا لگا ہوا ہے۔'' مطلب یہ تھا کہ اپنی لاش پر دیوان جی نے اعلان کیا تھا کہ تعزیہ گزرے گا ،اُسی لاش کے ساتھ دُوسری لاش جسے تعزیہ لے جانے والے اپنے قدموں کے نیچے پائیں گے وہ محمد قاسم کی لاش ہوگی۔ '' ١ ١ سوانح قاسمی ج ٢ ص ٧٤ تا ٧٦