ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
یعنی ایسی قدرت کہ اگر کوئی شرعی (قانونی) رُکاوٹ نہ ہو توہر طرح تصرف کر سکتا ہے۔ تصرف کی طاقت وکیل کو بھی ہوتی ہے مگر بلا واسطہ نہیں ہوتی بلکہ مؤکل کی عطا کردہ ہوتی ہے لہٰذا وکیل کو مالک نہیں کہا جائے گا۔ ایک دیوالیہ جس کو عدالت نے نوٹس دے دیا کہ وہ کوئی چیز بیچ نہیں سکتا وہ اگر چہ تصرف نہیں کرسکتا مگر اپنے اَثاثہ کامالک ہے۔ ہندوستان کے مشہور مایہ ناز فیلسوفِ اِسلام حضرت مولانا شاہ ولی اللہ المحدث الدہلوی المتوفٰی ١١٧٦ھ/١٧٦٣ء کے الفاظ نہایت مختصر اور واضح ہیں وہ فرماتے ہیں :مَعْنَی الْمِلْکِ فِیْ حَقِّ الْاٰدَمِیِّ کَوْنُہ اَحَقَّ بِالْاِنْتِفَاعِ مِنْ غَیْرِہ۔ ١ ''آدمی کے حق میں مِلک کے معنی یہ ہیں کہ دُوسرے کے مقابلہ میں اُس کو نفع اُٹھانے کا حق زیادہ ہے۔ '' بہر حال جبکہ ملکیت ِانسان کی حقیقت صرف یہ نکلی کہ اُس نے ایسا قابو پالیا یا اُس کو ایسی قدرت میسر آگئی جس سے اُس کو نفع حاصل کرنے کا حق ہو گیا تو اِیمانداری یہ ہے کہ اِس مقبو ضہ کو اِنسان اَمانت یا عاریت سمجھے، اِس کے اصل مالک کو پہچانے اور اپنے تصرف اور اِنتفاع کومالک ِ حقیقی کی ہدایات کے ماتحت رکھے جن حقیقت شناس خدا رسیدہ بزر گوں نے قرآن اور مذہب کی روشنی میں اِسلام و اَحکامِ اِسلام کے فلسفہ کوسمجھا پھر اُس کو فارسی زبان کے شیشہ میں ڈھالا ،اُن میں سے ایک کا شعر ہے : در حقیقت مالکِ ہر شے خدا اَست اِیں اَمانت چند روزہ نزدِ ما اَست یہ شعر مسلمانوں کے عقیدہ کے عین مطابق ہے اِس لیے ہر با ذوق مسلمان کی زبان پر ہوتا ہے اور جب وہ اپنی اور اِن چیزوں کی حقیقت پر غور کرتا ہے جن کو وہ اپنی سمجھتا ہے تو خاص جذبہ اور کیف کے ساتھ اِس شعر کو گنگنا تا رہتا ہے۔ (جاری ہے) ض ض ض ١ حُجة اللّٰہ البالغة ج ٢ ص ٩٦