ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
لیکن دولتمندکے ٹیکس کی تلافی اُس سود سے ہوجاتی ہے جو اُس کے دیے ہوئے روپیہ پر ملتاہے جس کی وجہ سے اُس کی دولت صرف محفوظ ہی نہیں رہتی بلکہ کچھ لے کر صحیح سالم واپس ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اَمیر زیادہ اَمیر اور غریب زیادہ غریب ہو جاتا ہے، یہی سود کی خاصیت ہے کہ اَمیر کو زیادہ اَمیر کر دیتاہے اور غریب کو پیس ڈالتاہے۔ آمدنی کے عام مدات یعنی زکوة ، عشر و خراج وغیرہ سے (جن کی تفصیل آئندہ آئے گی) جب قومی اور مُلکی ضرورتیں پوری نہ ہوں تب رب العالمین قرض کی اپیل کرتاہے لیکن اِس وعدہ کے ساتھ کہ اِس کامنافع اللہ تعالیٰ اَدا کرے گا عوام سے کچھ نہیں لیا جائے گا، عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے قرض لیا جا رہا ہے، نہ اِن پر بار ڈالنے کے لیے۔ سورۂ بقرہ میں ہے : اللہ کی راہ میں لڑائی پیش آجائے تو(موت سے نڈر ہوکر) جنگ کرو، اللہ تعالیٰ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (سورۂ بقرہ : ٢٤٤) اپیل ! کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے کہ اللہ تعالیٰ بڑھادے اُس کے قرض کواُس کے لیے کئی گنا۔ (سورہ بقرہ : ٢٤٥) صاحب ِ دولت کی دولت (خدا کے نام پر) خزانہ سے نکل کر گردش کرے گی توظاہرہے دولتمند کو اُس دولت میں سے دُنیامیں کچھ نہیں ملے گا اَلبتہ اِس گردش سے عوام کو فائدہ پہنچے گا اُن کی اِقتصادی سطح کچھ بلند ہوجائے گی اوراِس طرح اَمیری اور غریبی کی درمیانی مسافت اِعتدال پر آجائے گی۔ جنگ اوردفاع کے علاوہ دُوسری قومی ضرورتوں کے لیے بھی یہ قرض لیاجائے گا۔ (مثال کے لیے ذیل کاواقعہ مطالعہ فرمائیے) آنحضرت ۖ تشریف فرما تھے قبیلہ مضر کا ایک گروہ پہنچا، (شکستہ حال) بر ہنہ پا، بر ہنہ بدن، کچھ کمبل لپیٹے ہوئے، کچھ عبا پہنے ہوئے، کمروں میں رسیاں بندھی ہوئیں جن سے کمبل کے کنارے یا عبا کے دامن تھمے ہوئے تھے۔ آنحضرت ۖ نے اُن کی یہ حالت دیکھی تو چہرہ ٔ مبارک کا رنگ بدل گیا، آپ اَندر تشریف لے گئے پھر باہر آئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ اَذان پڑھیں اَوّل جماعت ہوئی پھر آپ نے خطبہ دیا پھر سورۂ نساء کی ایک آیت پڑھی جو اِس سورة کی پہلی آیت ہے ۔