Deobandi Books

کوثر العلوم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

29 - 31
انہی ظاہر المعنیٰ کے موافق بنایا جاتا ہے ) اور دوسری آیتیں ایسی ہیں جو مشتبہ المراد ہیں ( کہ ان کا مطلب خفی ہے ) سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو قرآن کے اسی حصہ کے پیچھے ہو لیتے ہیں جو مشتبہ المراد ہے (دین میں ) شورش ڈھونڈھنے کی غرض سے اور اس کے ( غلط) مطلب ڈھونڈھنے کی غرض سے (تاکہ اپنے غلط عقیدہ میں اس سے مدد حاصل کریں ) حالانکہ اس کا (صحیح) مطلب بجز حق تعالیٰ کے کوئی اور نہیں جانتا اور (اسی واسطے ) جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ (ایسی آیتوں کے متعلق )یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً ) یقین رکھتے ہیں سب آیتیں ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں (ظاہر المعنی بھی خفی المعنی بھی ۔پس ان کے جو کچھ معنی اور مراد واقع میں ہیں وہ حق ہیں ) اور نصیحت ( کی بات کو ) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو اہل عقل ہیں ۔ (یعنی عقل کا مقتضا بھی یہی ہے کہ) مفید اور ضروری بات میں مشغول ہو مضر او فضول قصہ میں نہ لگے۔(بیان القرآن)
اس آیت میں علوم کی تقسیم کردی گئی ۔ ایک علم محکم ایک علم متشابہ اور یہ بھی بتلاد یا گیا کہ علوم محکمہ اصل مقصود ہیں اور علوم متشابہ کا درپے ہونا مذموم ہے ۔ پس اب زیادت فی العلم کی تفصیل بخوبی واضح ہوگئی کہ زیادت ہر علم میں مقصود نہیں ۔ بلکہ صرف محکمات میں مقصود ہے ۔
افسوس ہے کہ لوگ آج کل انہی علوم کے درپے ہیں جن کے درپے ہونے سے روک دیا گیا ہے ۔ کوئی پوچھتا ہے نمازمیں کیا حکمت ہے ؟ کوئی کہتا ہے جماعت کی کیا فلاسفی ہے ؟ کوئی روزہ اور حج کی علّت کے درپے ہے ۔ حالانکہ شریعت نے علل احکام کے جاننے کا امر نہیں کیا ۔ اور جن عِلل کو بیان بھی کیا ہے جیسے سؤر ہرہ کے باب میں فرمایا ہے 
انھا من الطوافین علیکم والطوافات
وہ علتیں بھی اہل استنباط کے لیے بیان فرمائی ہیں ۔ تاکہ حکم کا تعدیہ کر سکیں عوام کو ان کے جاننے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں صلاحیت اجتہاد تو کیا ہوتی بعض عِلل سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں۔ بس ان اسرار کا حق یہ ہے کہ ’’کل من عند ربنا‘‘ کہہ کر اجمالاً اس پر ایمان لے آؤ کہ حق تعالیٰ کے احکام میں ضرور حکمتیں ہیں گو ہم کو معلوم نہ ہوں اور آیات متشابہات کے ضرور کچھ معنی ہیں گو ہم نہ جانتے ہوں اور جو اس کی مراد ہے ہم اس کو حق مانتے ہیں یہی معاملہ حروف مقطعات قرآنیہ کے ساتھ کرنا چاہئے ۔
بس اب میں ختم کرتا ہوں گو مضامین تو اور بھی قلب پر آرہے ہیں مگر اب رات کے بارہ بج چکے ہیں  سامعین بھی سونے لگے ہیں ۔ میں بھی تھک گیا ہوں ۔ خلاصہ بیان کا یہ ہے کہ سب مسلمان خصوصاً طلباء کو زیادت فی العلم اور نور علم کی تحصیل کا امر ہے اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ جس کے دو طریقے ہیں ایک دعا ، دوسرے تقوی عن المعاصی ۔
اس مضمون سے چونکہ بہت اذہان خالی تھے اور تھا نہایت ضروری ، اس لیے 
Flag Counter