نے توبہ کی۔ اسی وقت شاہ ابراہیم ابنِ ادہم کو کشف ہوا کہ توبہ کرتے ہی اس شخص کو ولایت کا بہت بلند مقام عطا ہوگیا اور اپنے وقت کے تمام اولیاء سے آگے بڑھ گیا۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رات میں حضرت ابراہیم ابنِ ادہم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ! لوگ بڑے بڑے مجاہدے کررہے ہیں، تہجد و اشراق پڑھ رہے ہیں لیکن ان کو اتنا اونچا درجہ نہیں ملا اور اس شرابی نے ابھی توبہ کی اور اس کو آپ نے اتنا اونچا مقام دے دیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے سلطان ابراہیم ابنِ ادہم! میرے لیے تو نے سلطنت فدا کی اور سلطنت کا عیش و آرام اور عزت و جاہ چھوڑ کر میرے لیے فقیری اختیار کی اور میرے لیے غار نیشاپور میں دس سال عبادت کی اور میری خاطر سے تو نے ایک گناہ گار بندہ کا منہ دھویا اور اس کی قے صاف کی۔ اَنْتَ غَسَلْتَ وَجْہَہٗ لِاَجْلِیْ تو نے میری خاطر سے، میری محبت میں اس کا چہرہ دھویا کہ یہ میرا بندہ ہے، گناہ سے تو تجھے نفرت تھی لیکن گناہ گار سے میری نسبت کی وجہ سے نفرت نہیں کی اور اس شرابی گناہ گار کا چہرہ دھویا۔ فَغَسَلْتُ قَلْبَہٗ لِاَجْلِکَ پس میں نے تیری خاطر اس کا دل دھو دیا، اور جس کا دل خدا دھودے اس کے دل میں رذائل کا امالہ نہیں ہوتا، ازالہ ہوجاتا ہے۔اس واقعہ پر علمائے دین فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں اللہ والے مجاہدہ کرتے ہیں۔ جنہو ں نے اپنی زندگی کو اللہ کی محبت میں جلاکر خاک کیا ہو ان کے ساتھ جو رہتا ہے، اُن سے محبت کرتا ہے، اس پر بھی اللہ تعالیٰ فضل فرمادیتے ہیں۔ جیسے مجاہدہ تو حضرت ابراہیم ابنِ ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا تھا لیکن ان کے اکرام میں اللہ تعالیٰ نے ایک شرابی پر بھی فضل فرمادیا۔ حضرت ابراہیم کی اس گناہ گار پرتھوڑی سی عنایت و توجہ کا انعام اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمایا کہ اس کو اس زمانے کا بہت بڑا ولی اللہ بنادیا۔
صحبت کی نافعیت کی ایک مثال
اور میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم ایک مثال اور دیتے ہیں کہ دس لاکھ کی کار کسی نے خریدی اور اس کے خریدنے کے لیے کتنا مجاہدہ کیا۔ محنت سے دن رات کمایا، خون پسینہ بہاکر روپیہ جمع کیا، پھر کار خریدی اور آپ نے اس سے دوستی کرلی۔ دوستی کی برکت سے کبھی آپ کو اپنی کار میں بٹھالے گا کہ کہاں جارہے ہو، آؤ بیٹھ جاؤ۔ محنت