ہو تو میری راہ میں کچھ قربانی پیش کرو۔ اسی طرح گال دیے داڑھی رکھنے کے لیے، مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر گال فارغ البال ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کسی موقع پر اس کو تفصیل سے بیان کروں گا۔ اس وقت صرف یہ بیان کرنا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد ابنِ حنبل اور امام مالک رحمہم اللہ چاروں اماموں کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور چہرے کے تینوں طرف ایک مشت داڑھی ہونی چاہیےیعنی دائیں بائیں اورٹھوڑی کے نیچے تینوں طرف ایک مشت ہونا واجب ہے۔ سنت کے مطابق داڑھی رکھ کر قیامت کے دن ہر داڑھی والا اللہ تعالیٰ کے حضور خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر پیش کرسکے گا؎
ترے محبوب کی یارب شباہت لے کے آیا ہوں
حقیقت اس کو تو کردے میں صورت لے کے آیا ہوں
اور رہ گیا گال فارغ البال رکھنے کا ذوق،یہ جنت میں اللہ تعالیٰ پورا فرمائیں گے۔
حدیث شریف میں ہے کہ یَدْخُلُ اَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ جُرْدًا مُرْدًا مُکَحَّلِیْنَ اَبْنَاءُ ثَلَاثِیْنَ اَوْثَلَاثٌ وَّثَلَاثِیْنَ3؎ جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے چہروں پر کوئی بال نہیں ہوگا، نہ وہاں حجام کی دکان ہوگی، نہ بلیڈ ہوگا نہ اُسترا، قدرتی طور پر مجرد ہوں گے بالوں سے۔ جیسے کہ ایک سبزہ آغاز تندرست نوجوان ہوتا ہے۔ وہاں سب ایسے ہی ہوجائیں گے اور کجلائی آنکھیں ہوں گی، تیس یا تینتیس سال عمر ہوگی اور مراد اس سے کمالِ شباب ہے۔
میں یہ عرض کررہا تھا کہ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے لہٰذا جو تقویٰ اختیار نہیں کرے گا وہ مومن تو رہے گا لیکن نافرمان مومن ہوگا، اور اسی حالت میں موت آئی تو متقی اور ولی اللہ ہوکر نہیں جائے گا۔ اب ہم آپ فیصلہ کرلیں کہ کیا ہم اللہ کے دوست بن کر جانا چاہتے ہیں یا مؤمن فاسق ہوکرجانا چاہتے ہیں۔
صحبتِ اہل اللہ سے راہِ تقویٰ لذیذ ہوجاتی ہے
اب رہ گیا یہ سوال کہ تقویٰ کی راہ تو بظاہر بہت مشکل معلوم ہوتی ہے۔ میرے شیخ
_____________________________________________
3؎ جامع الترمذی:81/2،باب ماجاء فی سن اہل الجنۃ،ایج ایم سعید